اتوار، 16 دسمبر، 2018

سقوط ڈھاکہ پرحمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کیوں عوام سے پوشیدہ رکھی گئی

تحریر
انجینئر عمران مسعود 

61دسمبر 1971 کے سانحہ کو ہوے ایک عرصہ بیت گیا جب ملک پاکستان کا وہ بازو ہم سے الگ ہوا جہاں سے قیام پاکستان کی تحریک نے آل انڈیا مسلم لیگ کی شکل میں 1906 میں جنم لیا۔
یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس کا زخم. آج بھی تازہ ہے.۔مگر اس کے اسباب کیا تھے اس سے عام پاکستان کو ایک طویل عرصہ تک لاعلم رکھا گیا۔
میجر راجہ نادر پرویز کہتے ہیں کہ 17 دسمبر کی صبح وہ محاذ پر موجود تھے کہ ایک بھارتی کرنل اپنی جیپ میں آیا اور ان سے مخاطب ہوکر بولا کہ آپ ابھی تک یہاں ہیں جبکہ جنگ تو ختم ہو چکی اور ڈھاکہ میں ہتھیار پھینک دینے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں کسی قسم کے احکامات موصول نہیں ہوے لہذا ہم آخری دم تک لڑیں گے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا عجیب بات ہو سکتی ہے کہ دشمن کا ایک جوان ہمارے جوان کو خبر دے رہا ہو کہ سرنڈر ہو چکا ہے اور آپ ابھی تک محاذ پر موجود ہو. اہل عقل و دانش کے لیے اشارہ ہے کہ کتنا بڑا گھناؤنا کھیل پس پردہ کھیلا گیا۔
سانحہ کے اسباب کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے اپنی سفارشات پیش کیں مگر وہ رپورٹ کیا تھی اس کو 18 سال تک پوشیدہ رکھا کیا۔

یہ بھی پڑہیے۔پاکستان سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی کوشش

آخر کار جب یہ رپورٹ ایک بھارتی ہفت روزہ India Today کے اگست 2000 کے شمارے میں شائع ہوئی تو ایک انکشافات کے سلسلے نے جنم لے لیا. سانحہ کے 29 سال بعد اس رپورٹ کا شائع ہونا کسی تشویش سے کم نہیں تھا۔ ایک اہم سوال کا جنم لینا فطرتی تھا کہ یہ رپورٹ بھارت کیسے پہنچی اور اب تک پو شیدہ کیوں رکھی گئی. یہ سوال ابھی تک تشنہ طلب ہے۔
تک کہا جاتا رہا کہ اس میں کچھ پردہ نشہنوں کے نام ہیں جس کی وجہ سے اس رپورٹ کو شائع نا کیا جا سکا۔حتی کہ یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ اس رپورٹ کی کوئی کاپی موجود نہیں۔اس سے قبل خان لیاقت علی کا قتل اور ضیاالحق طیارہ کیس کی رپورٹ تا حال منظر عام پر نہ آ سکی۔یوں لگتا جیسے مجرم حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں یا خود اقتدار کے مزے لینے والے کچھ عناصر اس کا حصہ رہے۔یہ تو بہر حال ایک تلخ داستان ہے۔
دسمبر 1990 کو مشاہد حسین کے حوالے سے دی نیشن میں جب حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ چھپی تو ایک بار پھراس موضوع پر گفتگو کا آغاز ہوا۔ حمود الرحمن کمیشن نے چھ جرنیلوں کا کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی تھی جن میں جنرل یحییٰ خان,  جنرل عبدالحمید, لیفٹیننٹ جنرل ایس جی ایم ایم پیرزادہ,  میجر جنرل عمر,  لیفٹیننٹ جنرل گل حسن اور جنرل مٹھا شامل ہیں۔
ان پر فیلڈ مارشل ایوب خان سے اقتدار چھیننے کے لیے سازش کرنے کا الزام عائد کیا گیا   ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ ان افسروں کا مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں محاذوں پر مجرمانہ غفلت برتنے پر بھی کورٹ مارشل کیا جائے اور مقدمہ چلایا جائے۔

آسیہ بی بی کو کیوں رہا کیا گیا اور عالمی طاقتیں کتنا دباؤ دال رہی ہیں۔ یہ بھی پڑہیں

اس پر ردعمل میں جنرل ریٹائرڈ گل حسن نے دعوی کیا کہ  وہ ہر قسم کے مقدمات اور کورٹ مارشل کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ اس کے بقیہ کرداروں یعنی مجیب الرحمن, ذوالفقار علی بھٹو, یحییٰ خان اور جنر حمید کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ یہ رپورٹ ایک افسانہ اور قیاس آرائی سے بڑھ کر کچھ نہیں کیونکہ بھٹو مرحوم کے دور میں یہ رپورٹ پھاڑ دی گئی ۔
ایک اخباری انٹرویو میں جب ان سے اس سانحہ میں بھٹو کے کردار پر سوال کیا گیا تو ان کو کہنا تھا کہ اگر بھٹو اس میں ملوث نہ ہوتے تو وہ اس رپورٹ کو تمام سربراہان کو بھیجتے اور اگر فوج ملوث نہ ہوتی تو ضیاالحق کمیشن کے سامنے پیش ہوتے۔ انہوں نے مزید واضح کیا تھا اس کمیشن نے ان سے چار گھنٹے تک سوالات کیے تھے جن کے انہوں نے جوابات دیے. بعد ازاں اس کا مسودہ ٹایپ شدہ حالت میں پڑھنے کے لیے ان کو فراہم کیا گیا جو انہوں نے پڑھ کر واپس کر دیا تھا مگر اب یہ رپورٹ اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں. جو کچھ بھی اب کہا جا رہا ہے وہ محض افسانہ یا قیاس آرائی ہے۔اس رپورٹ پر مفصل تجزیہ اور کرداروں کی تفصیل  طارق اسماعیل ساگر کی کتاب"حمودالرحمن کمیشن رپورٹ آخری سگنل کی کہانی " میں مل جائے گی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہآج اس رپورٹ کے پیش ہوے 36 برس کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ماضی کے تمام کمیشن رپورٹوں کی طرح یہ بھی قصہ ماضی بن چکا ہے.


16 december, saqoot e dhaka, east pakistan , hamood urehman conission zulfiqar ali bhutto,

منگل، 4 دسمبر، 2018

قرآنی انسائیکلوپیڈیا ایک عظیم کارنامہ



حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جن کے متعلق حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ آپ میری امت کے سب سے بڑے عالمِ قرآن ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر میرے اونٹ کی رسی بھی گم ہو جائے تو میں قرآن سے معلوم کر لیتا ہوں۔ گویاقرآن مجید وہ معجزاتی کتاب ہے جس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے۔حال ہی میں قرآن کا انسائیکلو بیڈیا منظرِ عام پر آیا  جو کہ ایک  عظیم علمی کاوش ہے۔
بلاشبہ اللہ تعالٰی جب اپنے دین کا کام لینا چاہتے ہیں تو کسی کو منتخب کر کے اس سے عظیم کام لے لیتے ہیں ۔قرآنی انسائیکلوپیڈیا وہ ایک عظیم کارنامہ جس کا سہرا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے سر ہے۔ اس سے قبل ان کی  تقریباً 551 تصانیف مختلف موضوعات پر چھپ چکی ہیں۔قرآنی انسائیکلوپیڈیا بلاشبہ امت مسلمہ کی تاریخ میں پہلی بار مرتب ہوا ہے۔ اس سے قبل قرآن کی سینکڑوں تفاسیر چھپ چکی ہیں مگر قرآن کے مضامیں کو ابواب کی شکل میں ترتیب دینے کا کام پہلی مرتبہ ہوا ہے۔اگرچہ اسلام360 کے نام سے اینڈرائیڈ ایپلی کیشن ایک پاکستانی نوجوان  زاہد چھیپا کی کاوش سے کچھ برس قبل ہی  متعارف ہوئی تھی جس کے اندر قرآن کے بہت سے مضامین تشنہ طلب  تھے جس کی کمی ڈاکٹر صاحب کے اس  انسائیکلو پیڈیا نے پوری کر دی ہے۔


بائیبل کے کونسے حصے آج بھی محفوظ ہیں؟؟؟ پڑہیے

اس  تصنیف کا تعارف ڈاکٹر صاحب نے اس سال عالمی میلاد کانفرنس میں کروایا تھا۔اس کتاب میں  کم و بیش پانچ ہزار موضوعات کا احاطہ کیا گیااور یہ تصنیف آٹھ جلدوں پر محیط ہے۔ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوے انہوں نے بتایا کہ ہر موضوع پر انہوں نے تمام آیات کو باب کے اندر بمعہ سرخیوں کے ترتیب دیا تاکہ قرآن کا مطالعہ کرنے والا جس موضوع پر پڑہنا چاہے اسے قرآن کی تمام آیات جو مختلف مقامات پر وارد ہوئی ہیں اس ایک موضوع پر مل جائیں . اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ قرآن فہمی اور بھی آسان ہو جائے گی خصوصاً محقیقین کے لیے قرآن فہمی کی نئی جہتیں متعارف ہوں گی۔
اس انسائیکلوپیڈیا کی خوبی یہ ہے کہ ہر موضوع کا جواب صرف قرآنی آیت اور اس کے ترجمہ سے دیا گیا ہے.۔تاکہ اختصار ملحوظ خاطر رہے جبکہ اس موضوع سے متعلقہ آیات ایک جکہ مجتمع ہونے سے موضوع کا فہم بھی واضح ہو جاتا ہے۔ آیات کا ترجمہ عرفان القرآن سے لیا گیا ہے جو کہ بذات خود ڈاکٹر صاحب کا ترجمہِ قرآن ہے۔

یہ بھی پڑہیے۔۔۔حضرت عمر رضی اللہ ؑنہ کی تاریخ شہادت میں اختلاف کی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔

اس تصنیف کی تقریبِ رونمائی حال ہی میں ایوان اقبال میں منعقد ہوئی۔جہاں مختلف علمی حلقوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شمولیت کی اور اس کاوش کو سراہا۔
اپنے انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ حدیث کے انسائیکلوپیڈیا پر بھی کام کر رہے ہیں جو اگلے سال ربیع الاول تک مکمل ہو جائے گا۔حدیث کا انسائیکلوپیڈیا تقریباً پچیس جلدوں پر مشتمل ہو گا۔




qurani encyclopedia, doctor tahir ul qadri new book, minhajulquran books, tahirul qadri qurani encyclopedia,  

ہفتہ، 1 دسمبر، 2018

بائیبل کے کونسے حصے آج بھی محفوظ ہیں؟؟؟

قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی نے  اہل یہود کے بارے میں فرمایا ہے کہ انھوں نے اللہ کے کلام میں تحریفات کر دیں۔ کچھ حصے آج بھی با ئیبل کے محفوظ ہیں ۔ ان محفوظ حصوں کے بارے بات کرنے سے قبل پہلے  کلامِ مجید سے سمجھتے ہیں کہ کن مقاصد کے حسول کے لیے تحریف کی گئی۔ جیسا کہ ارشاد ہے
اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ وَ قَدۡ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوۡنَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿سورہ بقرۃ)
"اے مسلمانو! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ "قوم یہود کے ایمان سے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو  واضح کیا کہ  جب ان لوگوں نے اتنی بڑی نشانیاں دیکھ کر بھی اپنے دل سخت پتھر جیسے بنا لئے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن کر سمجھ کر پھر بھی اس کی تحریف اور تبدیلی کر ڈالی تو ان سے تم کیا امید رکھتے ہو؟ ٹھیک اس آیت کی طرح اور جگہ فرمایا
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـيَةً ) 5 ۔ المائدہ:13 ) یعنی ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دئے یہ اللہ کے کلام کو رد و بدل کر ڈالا کرتے تھے ۔


حضرت لقمان کون تھے۔ قرآن نے ان کا زکر کیوں کیا؟؟؟


 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ سننے کو فرمایا اس سے مراد حضرت موسیٰ کے صحابیوں کی وہ جماعت ہے جنہوں نے آپ سے اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سننے کی درخواست کی تھی اور جب وہ پاک صاف ہو کر روزہ رکھ کر حضرت موسیٰ کے ساتھ طور پہاڑ پر پہنچ کر سجدے میں گر پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انیں اپنا کلام سنایا جب یہ واپس آئے اور نبی اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا یہ کلام بنی اسرائیل میں بیان کرنا شروع کیا تو ان لوگوں نے اس کی تحریف اور تبدیلی شروع کر دی ۔
سدی فرماتے ہیں ان لوگوں نے توراۃ میں تحریف کی تھی یہی عام معنی ٹھیک ہیں جس میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے اور اس بدخصلت والے دوسرے یہودی بھی ۔ قرآن میں ہے فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ یعنی مشرکوں میں سے کوئی اگر تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سنے بلکہ قرآن سنے تو یہاں بھی کلام اللہ سے مراد توراۃ ہے ۔


یہ تحریف کرنے والے اور چھپانے والے ان کے علماء تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف ان کی کتاب میں تھے ان سب میں انہو نے تاویلیں کر کے اصل مطلب دور کر دیا تھا اسی طرح حلال کو حرام ، حرام کو حلال ، حق کو باطل ، باطل کو حق لکھ دیا کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے آیت ( وَقَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْٓا اٰخِرَهٗ لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:72 ) یعنی اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا ایمان والوں پر جو اترا ہے اس پر دن کے شروع حصہ میں ایمان لاؤ پھر آخر میں کفر کرو تاکہ خود ایمان والے بھی ا    س دین سے پھر جائیں ۔ یہ لوگ اس فریب سے یہاں کے راز معلوم کرنا اور انہیں اپنے والوں کو بتانا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ چالاکی نہ چلی اور یہ راز اللہ نے کھول دیا جب یہ یہاں ہوتے اور اپنا ایمان اسلام و ظاہر کرتے تو صحابہ ا ن سے پوچھتے کیا تمہاری کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت وغیرہ نہیں؟ وہ اقرار کرتے ۔ جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو وہ انہیں ڈانٹتے اور کہتے اپنی باتیں ان سے کہہ کر کیوں ان کی اپنی مخالفت کے ہاتھوں میں ہتھیار دے رہے ہو؟


اسکندر اعظم کے بارے میں قرآن میں کیا ذکر آیا.

 مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ والے دن یہودیوں کے قلعہ تلے کھڑے ہو کر فرمایا اے بندر اور خنزیر اور طاغوت کے کے عابدوں کے بھائیو! تو وہ آپس میں کہنے لگے یہ ہمارے گھر کی باتیں انہیں کس نے بتا دیں خبردار اپنی آپس کی خبریں انہیں نہ دو ورنہ انہیں اللہ کے سامنے تمہارے خلاف دلائل میسر آ جائیں گے اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گو تم چھپاؤ لیکن مجھ سے تو کوئی چیز چھپ نہیں سکتی تم جو چپکے چپکے اپنوں سے کہتے ہو کہ اپنی باتیں ان تک نہ پہنچاؤ اور اپنی کتاب کی باتیں کو چھپاتے ہو تو میں تمھارے اس برے کام سے بخوبی آگاہ ہوں ۔ تم جو اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو ۔ تمہارے اس اعلان کی حقیقت کا علم بھی مجھے اچھی طرح ہے ۔
اہل کتاب توریت عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اس کی تفسیر مسلمانوں کے لیے عربی میں کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو کیونکہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہم پر نازل ہوا اور جو ہم سے پہلے تم پر نازل ہوا آخر آیت تک جو سورۃ البقرہ میں ہے۔   بخاری 7362
چنانچہ اس ضمن  میں مولانا مودودی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ موجودہ بائیبل میں زبور کے نام سے جو کتاب پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری زبور داؤد نہیں ہے ۔ اس میں بکثرت مزامیر دوسرے لوگوں کے بھی بھر دیے گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے مصنفین کی طرف منسوب ہیں ۔ البتہ جن مزامیر پر تصریح ہے کہ وہ حضرت داؤد کے ہیں ان کے اندر فی الواقع کلام حق کی روشنی محسوس ہوتی ہے ۔ اسی طرح بائیبل میں امثال سلیمان علیہ السلام کے نام سے جو کتاب موجود ہے اس میں بھی اچھی خاصی آمیزش پائی جاتی ہے اور اس کے آخری دو باب تو صریحاً الحاقی ہیں ، مگر اس کے باوجود ان امثال کا بڑا حصہ صحیح و برحق معلوم ہوتا ہے ۔ ان دو کتابوں کے ساتھ ایک اور کتاب حضرت ایوب علیہ السلام کے نام سے بھی بائیبل میں درج ہے ، لیکن حکمت کے بہت سے جواہر اپنے اندر رکھنے کے باوجود ، اسے پڑھتے ہوئے یہ یقین نہیں آتا کہ واقعی حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف اس کتاب کی نسبت صحیح ہے ۔ ۔ اس لیے قرآن میں اور خود اس کتاب کی ابتدا میں حضرت ایوب علیہ السلام کے جس صبر عظیم کی تعرف کی گئی ہے ، اس کے بالکل برعکس وہ ساری کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی مصیبت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کے خلاف سراپا شکایت بنے ہوئے تھے ، حتٰی کہ ان کے ہمنشین انہیں اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ خدا ظالم نہیں ہے ، مگر وہ کسی طرح مان کر نہ دیتے تھے ۔


کتاس راج تالاب کی گہرائی لا محدود؟؟ جنرل الیگزینڈر کن نگھم کی تحقیق کے مطابق کتنی گہرائی ہے؟؟


 ان صحیفوں کے علاوہ بائیبل میں انبیاء بنی اسرائیل کے ۱۷ صحائف اور بھی درج ہیں جن کا بیشتر حصہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ خصوصاً یسعیاہ ، یرمیاہ ، حزقی ایل ، عاموس اور بعض دوسرے صحیفوں میں تو بکثرت مقامات ایسے آتے ہیں جنہیں پڑھ کر آدمی کی روح وجد کرنے لگتی ہے ۔ ان میں الہامی کلام کی شان صریح طور پر محسوس ہوتی ہے ۔ ان کی اخلاقی تعلیم ، ان کا شرک کے خلاف جہاد ، ان کو توحید کے حق میں پر زور استدلال ، اور ان کی بنی اسرائیل کے اخلاقی زوال پر سخت تنقیدیں پڑھتے وقت آدمی یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اناجیل میں حضرت مسیح کی تقریریں اور قرآن مجید اور یہ صحیفے ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی سوتیں ہیں ۔

bible, quran, holly bible, holy Quran, jews,

بدھ، 21 نومبر، 2018

پاکستان سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی کوشش



تحریر
انجینئر عمران مسعود 

گزشتہ دنوں ایک خاتون رکن قومی اسمبلی کی جانب سے ایک تجویز پیش کی گئی کہ اسرائیل کو اب تسلیم کر لینا چاہیے۔ ان کی تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ ہم یہودیوں کے بارے اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ  وہ ہمارے دشمن ہیں۔ ہمیں ان کو دوست بنانا چاہیے اور دلیل کے طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول پیش کیا کہ دشمن پر قابو پانے کے لیے اسے دوست بنا لینا چاہیے۔ بظاہر ان کی سب باتیں انسانی ہمدردی کے تحت لگتی ہیں لیکن درحقیقت تاریخ اور عالمی منظر نامے سے بالکل لا علمی اور پردہ فرا موشی کا مرکب ہے۔
 یہ بات ما فوق العقل ہے کہ انہوں نے تاریخ کی کن کتب سے استفادہ کیا۔ اگر آپ صرف گوگل پر ہی سرچ کر لیتی تو یہودیوں کا کردار سامنے آجاتا اور اسرائیل کے قیام کے مقاصد بھی عیاں ہو جاتے۔تفصیل میں جانے سے قبل پہلے اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بین گریون(David Ben Gurion) کے الفاظ ہی کافی ہیں جو بعد میں جیوش کرونیکل 9 اگست 1967 میں شائع ہوے۔
"عالمی زائینست تحریک کو پاکستان سے خطرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور اس کا پہلا ٹارگٹ پاکستان ہونا چاہیئے۔ کیونکہ اس نظریاتی ملک(اسرائیل) کی بقا کے لیے پاکستان ایک خطرہ ہے۔" 
یہ الفاظ تب کے ہیں جب پاکستان میں جوہری پروگرام کا کوئی وجود نہیں تھا اور سیاسی خلفشار کا شکار تھا۔ پاکستان چونکہ ایک نظریاتی مملکت ہے اور اس کی اہمیت اس لیے بھی ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ آخری معرکہ حق و باطل جس میں دجال قتل ہوگا وہ اسرائیل کی سرزمین پر ہو گا اور یہودیوں سے لڑنے کے لیے  فوجیں ایران ، افغانستان اور پاکستان سے  نکلیں گی۔ اس کی بنیاد یہ حدیث ہے جبکہ بائبل میں بھی  اس کا اشارہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے، ان جھنڈوں کو کوئی چیز پھیر نہیں سکے گی یہاں تک کہ ( فلسطین کے شہر ) ایلیاء (موجودہ یروشلم )میں یہ نصب کیے جائیں گے“۔  گویا مسلمانوں کی اسرائیل پر فتح کا واضح اشارہ ہے۔
 اس وقت یہودی,  عیسائی اور مسلمان تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے خاتمہ کے قریب ایک عظیم الشان جنگ لڑی جائے گی جس کو Armageddonیا معرکہء ہر مجیدون کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
 "ہر " عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے پہاڑ جبکہ مجیدون فلسطین کی وہ وادی ہے آجکل اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔ یہ ماضی میں بھی حق و با طل کے معرکوں کا مرکز رہا یے۔ اس پر جو قبضہ کر لے وہ ناقابلِ تسخیر تصور کیا جا تا ہے۔
اسے بائبل کی زبان میں ’’ہر مجدون‘‘ (Armageddon) بھی کہا جاتا ہے اور غزہ پر بار بار کی اسرائیلی وحشت اور بربریت اُسی جنگ کی ریہرسل ہے۔ یہودی اس جنگ کے ذریعے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کو قائم کرنا چاہتے ہیں اور گریٹر اسرائیل میں مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک شامل ہیں۔ پھر یہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الضحرہ (Dome of the Rock) کو شہید کرنا اور پھر اس جگہ پر تھرڈ ٹمپل یعنی ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنا ہے اور اس میں تخت داود کو لا کر رکھنا ہے جو اس وقت انگلستان میں ’’ویسٹ منسٹرایبے‘‘ میں رکھا ہوا ہے۔ یہ وہ تخت ہے جس پر حضرت داؤد علیہ السلام کی تاجپوشی کی گئی تھی اور صیہونیت کا چوتھا اور آخری مقصد اور ہدف عالم اسلام کے تمام وسائل بالخصوص تیل پر قبضہ کرنا ہے۔ صیہونیت کے تمام اہداف ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مگر ان شاء اللہ مستقبل میں ’’گریٹر اسرائیل‘‘ ہی یہودیوں کا Greater Graveyardیعنی عظیم قبرستان بنے گا۔
 احادیث میں اس کو الملحمۃ الکبریٰ اور ہندو ویدوں میں مہا ید کے نام سے تذکرہ موجود ہے۔
 یہودی اور عیسائی اس جنگ کے بارے اتنے پر یقین ہیں کہ باقاعدہ طور پر جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ امریکہ کے سر براہان اسی جنگ کو مد نظر رکھتے ہو ئے اپنی پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ حتی کہ امریکی صدر رونلڈ ریگن نے اپنی الیکشن کمپیں میں برملا کہا تھا کہ
"ہماری موجودہ نسل ہر مجدون کا معرکہ ضرور دیکھے گی۔" یہاں تک کہ 1999 میں میں مسجد اقصی کو شہید کر کے اس جنگ کو شروع کرنے کی کوشش بھی کی جا چکی ہے۔ مسجد اقصٰی کی بنیادیں کھوکھلی کی جا چکی ہیں محض آثارِ قدیمہ کی تلاش کا بہانہ بنا کر یہ سب ایک منصوبہ بند ی کے تحت ہو رہا ہے۔ اور ان سرنگوں تک کسی عام شخص کو رسائی نہیں دی جاتی۔
 یہودیوں کے مطابق ان کا نجات دہندہ اسرائیل کی سرزمین پر آئے  گا۔ بقول ان کے حضرت دانیال علیہ السلام آئیں گے جس کے پوری دنیا پر ان کی حکومت ہو گی۔ عیسائیوں کے مطابق حضرت عیسٰی علیہ السلام  ان کو آسمان پر بادلوں میں لے جائیں گے جبکہ احادیث کی روشنی میں دجال یہودیوں کا پیشوا ہو گا جسے حضرت عیسٰی علیہ السلام قتل کریں گے۔

 یہ بھی پڑہیے۔

قائدِ اعظم کی حقیقی سالگرہ 25دسمبر نہیں بلکہ۔۔۔۔۔




 چنانچہ اس جنگ میں کامیابی کے لیے سب یہودی اسرائیل پر قابض اور آباد کاری کر رہے ہیں۔ اس کی پیش گوئی احادیث میں یوں ملتی ہے۔
"حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اصبہان کے یہودیوں میں سے ستر ہزار ( یہودی ) دجال کی پیروی کریں گے ، ان ( کے جسموں ) پر سیاہ چادریں ہوں گی ۔ "
( 7392 صحیح مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت المقدس کی آبادی مدینہ کی ویرانی ہو گی، مدینہ کی ویرانی لڑائیوں اور فتنوں کا ظہور ہو گا، فتنوں کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح ہو گی، اور قسطنطنیہ کی فتح دجال کا ظہور ہو گا پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس شخص یعنی معاذ بن جبل کی ران یا مونڈھے پر مارا جن سے آپ یہ بیان فرما رہے تھے، پھر فرمایا: یہ ایسے ہی یقینی ہے جیسے تمہارا یہاں ہونا یا بیٹھنا یقینی ہے ۔
( سنن ابی داؤد 4294)
آج اسی پیش گوئی کے مصداق گریٹر اسرائیل کے مشن پر آج پورا مغرب اور امریکہ کاربند ہے۔         سیدنا عوف بن مالک اشجعی انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور سلام کہا، آپ نے پوچھا : عوف ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: اندر آجاؤ۔ میں نے کہا: سارا آجاؤں یا کچھ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : پورے کے پورے ہی آجاؤ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عوف! قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے چھ بڑی بڑی علامتوں کو شمار کرو، پہلی علامت میری موت ہے۔ یہ سن کر میں رونے لگ گیا، پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے چپ کرانے لگ گئے، میں نے کہا: یہ ایک ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دوسری بیت المقدس کی فتح ہے۔ میں نے کہا: یہ دوسری ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیسری علامت یہ ہے کہ میری امت میں اس قدر زیادہ موتیں ہوں، جیسے بکریاں موت کی وباء میںمرنے لگتی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : یہ تیسری ہو گئی، اور چوتھی علامت یہ ہے کہ ایک بڑا فتنہ ہو گا، یہ چوتھی ہو گئی اور پانچواں یہ کہ دولت اس قدر عام ہوجائے گی کہ جب کسی کو ایک سو دینار دئیے جائیں گے تو وہ ان کو قلیل سمجھتے ہوئے غصے کا اظہار کرے گا۔ آپ نے فرمایا : یہ پانچویں ہوئی اور چھٹی علامت یہ ہو گی کہ تمہارے اور بنو الاصفر یعنی رومیوں کے درمیان صلح ہوگی،لیکن وہ (عہد توڑ کر) اسی جھنڈوں کے نیچے چل کر آئیں گے۔ میں نے کہا: غایہ سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد جھنڈا ہے، ہر جھندے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے، ان دنوں مسلمانوں کا مرکز دمشق میں غوطہ نامی مقام پر ہوگا۔
(مسند احمد 12840)

آج نیٹو فورسز کا قیام اسی جھنڈوں یعنی  ممالک کی اتحادی فوجیں اور وار اون ٹیرر کے نام پر ہونے والی کاروایاں اسی حدیث کے مصداق ہیں۔

 جمی ساروٹ کہتا ہے:۔میں چاہتا تھا کہ میں کہ سکوں کہ ہماری صلح ہونے والی ہے۔مگر میں آنے والے ہر مجدون کے معرکے پر ایمان رکھتا ہوں۔بے شک ہر مجدون آ کر رہے گا۔وادی مجیدو میں گھمسان کا رن پڑے گا اور وہ آ کر رہے گا۔صلح کے جس معاہدے پر وہ دستخط کرنا چاہتے ہیں کر لیں معاہدہ کبھی پورا نہیں ہوگا تاریک دن آنے والے ہیں۔
 اسی طرح پیسٹرکن باؤ جس کا تعلق میکلن چرچ سے ہے کہتے ہیں۔ دنیا کا خاتمہ قریب ہے اور اس حادثے کا وقوع ہماری زندگی ہی میں کسی وقت ہو سکتا ہے۔واضح تعین کر دیا ہے میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک نسل کے ختم ہونے سے پہلے یہ باتیں ہو جائیں گی۔
          اسی طرح  شجر غرقد ( Lycium،boxthorn) جسے بڑی تعداد میں اسرائیل اور کابل کی سرزمین پر کاشت کیا جا رہا ہے اس عقیدہ کے ساتھ کہ آخری جنگوں میں یہودیوں کے لیے پناہ کا کام دے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے چودہ صدیاں قبل ہی آگاہ فرما دیا تھا۔ چنانچہ

یہ بھی پڑہیے

حضرت لقمان کون تھے۔ قرآن نے ان کا زکر کیوں کیا؟؟؟





حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت قائم نہیں ہوگی ، یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں کے خلاف جنگ لڑیں گے اور مسلمان ان کو قتل کریں گے حتیٰ کہ یہودی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا اور پتھر یا درخت کہے گا : اے مسلمان!اے اللہ کے بندے!میرے پیچھے یہ ایک یہودی ہےآگے بڑھ ، اس کوقتل کردے ، سوائے غرقد کے درخت کے ( وہ نہیں کہے گا ) کیونکہ وہ یہود کا درخت ہے ۔
 (صحیح مسلم6761)

حتٰی کہ دجال کا مقامِ  مقتل  بھی بتا دیا چنانچہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: ”ابن مریم علیہما السلام دجال کو باب لد کے پاس قتل کریں گے“۔
(جامع ترمذی 2244)
موجودہ دور میں لُد اسرائیل کے دار الحکومت تل ابیب سے 15 کلومیٹر دور واقع شہر ہے۔ شہر کی موجودہ اہمیت یہاں موجود بین الاقوامی ہوائی اڈے کی وجہ سے ہے۔ یہ ہوائی اڈا برطانوی راج کے دوران فوجی پروازوں کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم 1948 ء میں اسرائیلی حکومت کے زیراستعمال آنے کے بعد سے یہ کمرشل، پرائیویٹ اور فوجی تینوں طرح کی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ٹرین، بس یا کار کسی بھی ذریعے سے اس ہوائی اڈے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس ایئرپورٹ کے چار ٹرمینل ہیں، جن میں سے تین استعمال میں ہیں جبکہ چوتھا ٹرمینل 1999ء میں تکمیل کے باوجود ابھی تک کھولا نہیں گیا ہے۔ اسرائیل-فلسطین تنازعے کے پیش نظر یہاں سیکیورٹی کا بہت زیادہ انتظام کیا گیا ہے اور یہ دنیا کے محفوظ ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔
          لُد شہر کی موجودہ صورت حال پر ایک نظر ڈالنے کے بعد 1400 سال پہلے بیان کی گئی حدیث میں متذکر بابِ لُد کی اہمیت کی وجہ واضح ہوتی ہے، یعنی یہاں موجود بین الاقوامی ہوائی اڈا۔ حدیث کی وضاحت کے تناظر میں ایک زاویہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لڑائی کے دوران دجال پسپا ہو کرکسی ہمدرد مغربی ملک کی طرف بھاگنے کی کوشش کرے اور اس کے لیے اسے ہوائی اڈے کا رخ کرے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام، جو زمین پر فتنہ دجال کا خاتمہ کرنے کے لیے اتارے گئے ہوں گے وہ اسے بھاگنے سے پہلے ہی پکڑ لیں گے اور قتل کر دیں گے۔ یوں دنیا سے دجال کا خاتمہ ہو جائے گا اور اسلام کا بول بالا ہوگا۔
          حاصل کلام یہ ہے کہ اس وقت پورا عالم یہود و نصرانی اس آنے والی جنگ کی تیاری میں مصروف ہے اور امت مسلمہ کو دہشت گردی اور دوسرے مسائل میں الجھا  کر رکھنے کی کوشش جاری رکھے ہوے ہے۔ اب وقت ہے کہ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہے نا کہ کسی اور کے ایجنڈا کو پروان چرھانا ہے۔

jews, greater israel, america, end of times,armageddon, israel, yaruslum   

اتوار، 18 نومبر، 2018

حاجی عبدالوہاب شخصیت ، خدمات اور جدوجہد


امیر تبلیغی جماعت حاجی عبد الوہابرح طویل علالت کے بعد 18 نومبر 2018 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی زندگی ایک جہد مسلسل اور عزم صمیم سے رقم ہے۔ آپ یکم جنوری 1923 میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد بطور تحصیل دار نوکری کا آغاز کیا۔ آپ مولانا عبد القادر رائے پوری سے متاثر تھے اور زمانہ طالبعلمی سے ہی مجلس احرارِ اسلام سے وابستہ ہو گئے تھے۔ حتٰی کہ مجلسِ احرار بوریوالا کے صدر بھی رہے۔


 بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس کاندھلوی سے ان کی ملاقات نظام الدین مرکز میں ہوئی جہاں تقریباً 6 ماہ ان کی صحبت میں گزارے. مولانا نے ان کو کہا کہ ان کو ایسے لوگ چاہیے جن کو نہ تنخواہ کی ضرورت ہو نہ کوئی دنیاوی آسائش صرف دین کی خاطر لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔
یہ 1 جنوری 1944 کی بات ہے۔ پھران کی صحبت کا اثر تھا کہ حاجی صاحب نے ان کی آواز کو لبیک کہا اور اپنی نوکری تک چھوڑی اور اپنی زندگی تبلیغ کے کام کے لیے وقف کر دی حتٰی کہ انہوں نے ساری زندگی شادی تک نہیں کی۔        
 آپ نے براہ راست مولانا الیاس کاندھلوی, یوسف کاندھلوی اور انعام الحق کاندھلوی سے استفادہ کیا اور ان کے ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
 آپ نظام الدین (دہلی) میں عالمی شوری کے رکن جبکہ رائے ونڈ تبلیغی مرکز کی مرکزی شوری کے نگران بھی تھے۔  رائے ونڈ ہی میں انہوں نے جامعہ عربیہ کی بنیاد رکھی۔


تبلیغی جماعت پاکستان کے باقاعدہ پہلے امیر محمد شفیع قریشی تھے جن کے بعد حاجی محمد بشیر امیر جماعت منتخب ہوے. حاجی صاحب نےدونوں کے ساتھ وقت گزارا اور تبلیغی مراکز کے قیام کے لیے شہر شہر لوگوں کو ترغیب دی۔میں قیام پاکستان کے بعد آپ کی تشکیل پاکستان میں ہوئی۔ یہاں آپ نے اسی لگن کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھا۔ 1992 میں امیر حماعت حاجی محمد بشیر کی وفات کے بعد تیسرے امیر منتخب ہوے۔
 اکتوبر 2013 میں جب پاکستانی طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی جانب پیش رفت ہوئی تو طالبان نے بطور سربراہ حاجی عبد الوہاب کا نام پیش کیا تھا۔


 عالمی طور آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. حتی کہ 2014/2015 میں 500 بااثر مسلمان شخصیات کی فہرست میں 10ویں نمبر پر رکھا گیا. آپ کی وفات یقیناً ایک گرانقدر نقصان ہے۔ ان کی تبلیغ اور خدمت دین کے لیے کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
tableeghi jamat, dawhaji abdulwahab, raiwind, ijtima, haji abdulwahab death, molana tariq jameel, at o tableegh

جمعرات، 8 نومبر، 2018

علامہ اقبال عشق مجازی سے عشق حقیقی تک۔


کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہر ناکام مرد کے پیچھے بھی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی شاعری جس نے مسلمانان بر صغیر میں ایک ولولہ اور جوش پیدا کر دیا تھا جو بعد ازاں قیام پاکستان کا پیش خیمہ بنا۔ ان کی شاعری کا اگر مطالعہ کریں تو اس میں ایک ارتقا کا عنصر بیت واضح ملتا ہے۔  ان کی شاعری سفر یورپ سے قبل کیا تھی اور بعد میں کس تصور کے گرد گھومتی ہےیہ بہت دلچسپ موضوع ہے۔
علامہ اقبال کی ابتدائی زندگی کا مطالعہ کریں تو سفر یورپ ان کی زندگی میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ جب ان کی ملاقات 1907 میں عطیہ فیضی سے ہوئی۔ جس کے بعد علامہ اور عطیہ کے درمیان ملاقاتوں ,عشائیوں اور بحث و مباحثہ کے ایک سلسلے کا آغاز ہوا۔ اور جلد ہی ان کے روابط بے تکلفی میں بدل گئے۔  کہا جاتا ہے کہ اقبال ان سے شادی کے خوہشمند تھے مگر اس کے حوالے سے کوئی واضح ثبوت موجود نہیں۔
عطیہ فیضی کون تھی ان کے بارے میں ڈاکٹر منظر عباس نقوی اپنی کتاب خطوط اقبال بنام عطیہ فیضی مطبوعہ 1967 لکھتے ہیں کہ وہ بمبی کے اس متمول اور ممتاز فیضی خاندان کی چشم و چراغ تھیں جو تعلیم اور روشن خیالی کے نقطہ ء نظر سے ہندوستانی مسلمانوں میں بہت پیش پیش تھا. ان کے والد حسن آفندی صاحب ایک بڑے تاجر تھے جن کا قیام بسلسلہ تجارت(1880)سے کئی سال تک استنبول میں رہا.  یہ وہی زمانہ تھا جب کہ 1892  میں مولانا شبلی بلاد اسلامیہ کی سیاحت فرماتے ہوئے ترکی پہنچے. ڈاکٹر وحید قریشی کے بیان کے مطابق اس وقت ان کی عمر ایک آدھ سال سے زیادہ نہ تھی۔اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ لگ بھگ 1891 کے اوائل میں پیدا ہوئیں۔
وہ ایک غیر معمولی زہین لڑکی تھی. اس وقت ان کی عمر تقریباً چودہ پندرہ سال تھی جب اعلی تعلیم کی لیے سکالر شپ پر انگلستان آگئی۔ یہاں فلسفہ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔اس دور میں جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کا اتنا رواج نہیں تھا  عطیہ ایک با اعتماد اور بے باک خاتون تھیں۔ اقبال سے پہلی ملاقات اپریل 1907 میں مس بیک کے کے گھر ایک دعوت پر ہوئی۔ جو بذات خود مس بیک نے ان کی ملاقات کے لیے ترتیب دی۔ اقبال عطیہ سے پہلی ملاقات میں ان کی زہانت کے دلدادہ ہوگئے۔ جس کے کچھ روز بعد اقبال نے ان کو ڈنر پر ایک لندن کےریستوران میں مدعو کیا ساتھ میں اپنے جرمن دوستوں کو بھی دعوت دی۔ جس پر عطیہ بہت متاثر ہوئیں. اور اقبال کو چائے کی دعوت دے ڈالی۔  گویا ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
غرض اقبال کے اپنے تحقیقی مقالہ میں بھی عطیہ بیگم کی مشاورت شامل ہے۔ جس کے لیے علامہ نے 27 جون 1907 کو مس شولی کے گھر عطیہ کو مدعو کیا اور خاص طور پر ہندوستانی کھانوں کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر اقبال نے ان کو بتایا کہ وہ خود ہندوستانی کھانے بنا سکتے ہیں۔ غرض اقبال نے اس وقت ان کو اپنا پورا مقالہ پڑھ کے سنایا اور عطیہ بیگم نے اپنی آرا دیں جو اقبال نے الگ کاغذ پر نوٹ کیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عطیہ واقعی بہت غیر معمولی زہانت کی حامل تھیں اور اقبال جیسے شخص بھی ان کا مداح تھے۔ اقبال اور ان کی رفاقت اس نہج پہ پہنچ گئی کہ دوست اور محبوبہ کا فرق کرنا مشکل لگتا ہے۔  جیسا کہ اقبال ایک خط میں لکھتے ہیں کہ
"آپ جانتی ہیں کہ میں آپ سے کوئی بات راز نہیں رکھتا۔ میرا ایمان ہے کہ ایسا کرنا گناہ ہے. "
 علامہ نے علی گڑھ کالج  میں تدریس کی پیش کش کوٹھکرایا تو عطیہ بیگم نے اس کا سبب دریافت کیا تو اس کے جواب میں انہوں نے اپنی ذاتی زندگی، احساسات اور محرومیوں کا تذکرہ یوں کیا۔

"میں کوئی ملازمت نہیں کرنا چاہتا۔ میرا تو منشا یہ ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے اس ملک سے بھاگ جاؤں۔ سبب آپ کو معلوم ہے۔ میرے اوپر اپنے بھائی صاحب کا ایک طرح سے اخلاقی قرضہ ہے جو مجھے روکے ہوئے ہے۔ میری زندگی انتہائی اذیت ناک ہے۔ یہ لوگ میری بیوی کو میرے سر تھوپنا چاہتے ہیں۔  میں نے اپنے والد صاحب کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی طے کرنے کا کوئی حق نہیں تھا خصوصاً جبکہ میں نے پہلے ہی اس قسم کے بندھن میں گرفتار ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ میں اس کی کفالت پر آمادہ ہوں لیکن اس بات کے لیے بالکل تیار نہیں کہ اس کو ساتھ رکھ کر اپنی زندگی عذاب بنا لوں۔ ایک انسان ہونے کے ناطے مجھے بھی خوش رہنے کا حق حاصل ہے۔ اگر سماج یا قدرت مجھے یہ حق دینے سے انکار کرتی ہے تو میں دونوں کا باغی ہوں۔اب صرف ایک ہی راہ باقی ہے کہ یا تو میں ہمیشہ کے لیے اس بد بخت ملک سے چلا جاؤں یا شراب میں پناہ لوں جس سے خو کشی قدرے آسان ہو جاتی ہے۔ "
آخر میں لکھتے ہیں کہ مجھے معاف کرنا میں ہمدردی کا طالب نہیں. صرف یہ چاہتا ہوں کہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لوں. آپ کو میرے بارے میں سب معلوم ہے اس لیے اپنے جذبات کے اظہار کی جرآت کی ہے. یہ راز کی بات ہے براہ کرم کسی سے نہ کہیے۔ ملک واپسی کے کچھ عرصہ بعد اقبال کی شادی ہو گئی اور عطیہ بیگم نے سیموئیل راحمین بعد ازاں راحمین فیضی سے شادی کر لی اور یہ خط و کتابت 1912 کے بعد منقطع ہو گئی.
تقریباً 20 سال بعد اقبال سے لاہور میں عطیہ کی ملاقات ہوئی ۔ عطیہ اور اقبال کے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے اقبال کو اپنے مشورے اور آرا سے آگاہ رکھا۔ بعد آزاں یہ خطوط 1947 میں شائع ہوئے جس سے اقبال کی زندگی کا ایک باب محققین کی نظر میں آگیا جس سے اقبال کی شاعری کو سمجھنا اور بھی آسان ہوگیا۔Related image
اپنی آرا سے ضرور آگاہ کیجئے. عطیہ بیگم اور ان کی خدمات سے متعلق الگ سے ایک تحریر جلد آپ کی نذر کروں گا۔

allam iqbal, atya faizee, rahmeen faizee, iqbal, pakistan, iqbal letters to atya faizee,

بدھ، 7 نومبر، 2018

آسیہ بی بی کو کیوں رہا کیا گیا اور عالمی طاقتیں کتنا دباؤ دال رہی ہیں۔

31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر آسیہ بی بی کے خلاف کیس خارج کرنے اور ان کی رہائی کا حکم   دیا۔جس کے بعد ملکی حالات نے ایک نئی کروٹ لی۔قانونی ماہرین کے مطابق آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کی بنیاد چار وجوہات پر ہے:
o       ایف آئی آر درج کرنے میں دیر ہوئی جس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں۔
o       گواہان کے بیانات میں عدم مطابقت پائی گئی۔
o       آسیہ بی بی نے اعترافِ جرم  غیر عدالتی طور پر کیا جس کا عدالتی ثبوت  کا عدم وجود
o       عدالتوں کی جانب سے آسیہ بی بی پر لگائے جانے والے الزامات کی صحت اور ان کے ماحول کے تناظر کو نظر انداز کرنا۔
تاہم یاد رہے توہین مذہب کا الزام تو آسیہ پر لگا تھا تاہم ان کے خاندان کا بھی اِٹاں والی میں رہنا مشکل ہو گیا۔ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی طرف چلے گئے اور بالآخر برطانیہ میں انھیں پناہ مل گئی۔
آسیہ بی بی کے مقدمے نے ملک کی رائے عامہ کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی سے جیل جا کر ملاقات کی تھی، اور ان کے حق میں بات کی تھی، جس کی پاداش میں ان کے اپنے محافظ پولیس اہلکار ممتاز قادری نے چار جنوری 2011 میں اسلام آباد کی مصروف کوہسار مارکیٹ میں گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
اس وقت بھی بہت سے لوگ ممتاز قادری کو حق بجانب اور شہید قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے آسیہ بی بی کو قتل کرنے پر پانچ لاکھ روپے کا انعام بھی مقرر کیا گیا تھا۔
یہ کیس بین الاقوامی طور پر بھی زیرِ بحث آیا۔جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اُس وقت کے رومن کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ بینیڈکٹ نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ آسیہ بی بی کو رہا کرے، جبکہ موجودہ پوپ فرانسس نے آسیہ بی بی کے گھر والوں سے ملاقات کی تھی۔ اسی طرح24 فروری 2018 کو آسیہ بی بی کو سزائے موت دینے کے فیصلے کے خلاف اٹلی کے شہر روم میں سینکڑوں افراد کولوسیئم تھیئٹر کے سامنے جمع ہوئے۔ اس دوران اس قدیم عمارت کو سرخ رنگ میں رنگ دیا گیا تھا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ایشیا پیسیفک ڈائریکٹر ڈیوڈ گرفتھس نے ایک بیان میں کہا کہ 'یہ سنگین ناانصافی ہے۔ آسیہ بی بی پر شروع میں فردِ جرم ہی عائد نہیں کرنی چاہیے تھی، سزائے موت دینا تو دور کی بات ہے۔'اس کے علاوہ امریکہ محکمۂ خارجہ نے بھی کئی بار اس کیس کا ذکر کیا ہے۔ جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آسیہ کی رہائی میں عالمی طاقتیں کس قدر دلچسپی رکھتی ہیں اور عالمی میڈیا اس فیصلے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کیا فیصلہ آتا ہے۔

Asia bibi, saqib nisar,supreme courtm asia  bibi case, khadim rizvi

پیر، 5 نومبر، 2018

آسیہ مسیح فیصلہ کے خلاف دھرنے میں توڑ پھوڑ کرنے میں کون ملوث نکلا۔ اہم انکشاف


   
دنیا  کی تاریخ میں دوہی  ایسے ممالک وجود میں آئے  جو کسی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئے۔ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل۔ پاکستان اسلام کے نام پر جبکہ  اسرائیل   یہودیت کے نام پر۔لہٰذا  بطور ایک اسلامی ریاست پاکستان کے آئین  میں عقیدہ ِ رسالت وختمِ نبوت ﷺ  ایک بنیادی اساس کا حامل ہے۔ اور محبتِ رسول ﷺ ایک مسلمان کا بنیادی اثاثہ ہے۔اور ایک مسلمان چاہے جتنا بھی گناہ گار ہو توہینِ رسالت ﷺ برداشت نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ صرف امت محمد ﷺ کا خاصہ ہے کہ  وہ نہ صرف اپنے نبیﷺ سے ایمانی لگاؤ رکھتی ہے بلکہ ایک جذبات کے رشتے سے بھی منسلک ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اب آتے ہیں آسیہ بی بی توہینِ رسالت ؐ  کیس کی جانب جو کہ ایک حساس نوعیت اختیار کر چکا ہے جبکہ بہت سے تضادات نے اس کو اور بھی مشکوک بنا دیا ہے۔جس کی وجہ سے ایک عام مسلما ن کے لیے یہ فیصلہ کرنا  بہت مشکل ہے کہ آیا کون حق پر ہے۔ دوسری جانب  حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ملکی حالات میں ایک بھونچال برپا کر دیا ہے۔جس سے ایک بے یقینی کی سی کیفیت نے جنم لے لیا ہے۔
ملک میں دھرنوں اور احتجاج نے جہاں کاروبارِ زندگی کو معطل کیا وہیں جلاؤ گھیراؤ نے  اربوں کا نقصان کیا۔  گویا سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ دوسری جانب ایک طبقہ وہ ہے جس نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور  اس فیصلے کے خلاف   ہونے والے احتجاج    کو  طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ جس کے جواب میں ججوں اور فوجی جرنیلوں کے واجب القتل تک کے فتاویٰ جاری ہوئے۔
اس صورت حال میں ایک وہ طبقہ سامنے آیا جو کہ آسیہ کو واجب القتل سمجھتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جس کا اصرار تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے اور اس کو برقرار رکھنا چاہیے ۔ حکومت کی جانب سے بھی نا عاقبت اندیشی کی مثال دیکھیں کہ یہ اعلان کر دیا گیا کہ یہ ایک چھوٹا سا طبقہ ہے لہذا ہم حکومت کی رٹ قائم کریں گے۔جس اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
جس کے نتیجے میں ایک ملک گیر احتجاج نے شدت سے جنم لے لیا۔ حرمتِ رسول کوئی چھوٹا سا مسئلہ نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے دین ایمان کا مسئلہ ہے اور احتجاج یقیناً ایک فطری عمل تھا۔
اس احتجاج میں شدت آنے سے بہت سے شر پسند عناصر نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور حسب معمول املاک کو نقصان پہنچایا۔ یہ وہی عناصر ہیں جو گزشتہ تاریخ میں ہونےوالے احتجاج اورتحریکوں میں امن امان اوراملاک کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے۔ ظاہر ہے عام عوام بھی ان کے ہاتھوں استعمال ہوتی آئی ہے اور اس بار بھی ہوئی۔
افسوس کی بات ہے کہ وہ طبقہ جو خود کو لبرل اور پڑھا لکھا سمجھتا ہے اس نے انہی واقعات کو بنیاد بنا کر علماء اور مذہبی طبقے کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ جو کہ حقائق کے با لکل منافی ہے۔ بلکہ ملکی تاریخ سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے. زیادہ دور مت جائیے بینظیر کے قتل کے بعد 3 دن تو جیسے حکومت کا وجود ہی ختم ہو گیا ہو۔ اےٹی ایم تک لوٹ لی گئیں۔ ٹرینیں جلا دی گئیں۔ اسی طرح سیاسی تحریکوں میں دیکھیں تو سپریم کورٹ پر چڑھائی، پی ٹی وی پر حملہ اورشہر بند کرنے تک کے اقدامات نے ملک کو کتنا نقصان پہنچایا۔ ان اقدامات کی کوئی حمایت نہیں کرتا اور نہ ان عناصر کا کسی تحریک سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر توہینِ رسالت کے معاملہ میں بھی جو لوگ نکلے وہ بھی ایمانی جذبہ سے مغلوب ہو کر نکلے اور حسبِ سابق جیسے یہ تحریک زور پکڑتی گئی حالات قابو سے باہر ہوتے گئے۔ آسیہ مسیح کا جو بھی فیصلہ آتا ہے یہ ایک الگ داستان ہے جسے کسی دوسرے موضوع میں زیرِ بحث لائیں گے مگر یہ طے ہے کہ مغربی میڈیا بھی اس کیس میں گہری دلچسپی رکھتا ہے جس کا ثبوت مغرب کا اس فیصلے پر رد عمل ہے۔
بہر حال عرض کرنے کا مقصد ہے کہ ناموس رسالت کے لیے احتجاج کو ان فتنہ پرور سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر تنقید اور مذاق بنانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ کہیں انجانے میں علماء اور مذہب کا مذاق کو نہیں اڑا رہے۔ اختلاف ہر انسان کا حق ہے مگر اپنے اختلاف کو مخالفت میں مت تبدیل کیجیے۔
علماء اور تمام مسلمانو سے بھی گزارش ہے کہ ان شر پسند عناصر کو بے نقاب کریں کیونکہ یہی عناصر ناموسِ رسالت کے پاکیزہ جذبہ لیے تحریک کو تار تار کر رہے ہیں۔ اور آخر میں حکومت کو چاہئیے کے اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اس کو ڈنڈے اور بیرونی دباؤ کی بجائے علماء کی باہمی مشاورت اور علمی طریقے سے حل کیا جائے۔ یہ مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ دین ایمان کا مسئلہ ہے اس لیے سب کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ امت پہلے ہی اس معاملے زخمی ہے اور نہ جانے کتنے لوگ جان بھی گنوا بیٹھے ہیں اس لیے ان کے زخموں پر نمک مت چھڑکیے۔

asia masih, asia bibi, cheif justice, tlp, khadim rizvi,mumtaz qadri, lahore dharna, blasphemy, saqib nisar, afzal qadri