بدھ، 12 ستمبر، 2018

دنیا کی پہلی دہشت گردی۔۔۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کیوں شہید کیا گیا۔۔۔۔؟؟؟ کتنے صحابہ اس حملہ میں شہید ہوے؟؟؟ وقت شہادت ان پر کتنا قرضہ تھا؟؟

     

     حضرت  عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت بلا شبہ امت کے لیے کسی سانحہ سے کم نہیں تھی  کیونکہ ان کی شہادت  کے بعد امت پر فتنوں اور خلافت راشدہ کے زوال کا آغاز ہو گیا۔ خود احادیث میں بھی آتا ہے کہ ان کی ذات اور فتنوں کے درمیان ایک دروازہ ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری  1435
"حضرت حذیفہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے انہوں نے ہم سے دریافت کیا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آپ لوگوں میں کس کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں اس طرح یاد رکھتا ہوں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان فرمایا تھا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہیں اس کے بیان پر جرات ہے۔ اچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ میں نے کہا کہ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) انسان کی آزمائش ( فتنہ ) اس کے خاندان ‘ اولاد اور پڑوسیوں میں ہوتی ہے اور نماز ‘ صدقہ اور اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے منع کرنا اس فتنے کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ اعمش نے کہا ابووائل کبھی یوں کہتے تھے۔ نماز اور صدقہ اور اچھی باتوں کا حکم دینا بری بات سے روکنا ‘ یہ اس فتنے کو مٹا دینے والے نیک کام ہیں۔ پھر اس فتنے کے متعلق عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری مراد اس فتنہ سے نہیں۔ میں اس فتنے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا پھیلے گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ میں نے کہا کہ امیرالمؤمنین آپ اس فتنے کی فکر نہ کیجئے آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا صرف کھولا جائے گا۔ انہوں نے بتلایا نہیں بلکہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب دروازہ توڑ دیا جائے گا تو پھر کبھی بھی بند نہ ہو سکے گا ابووائل نے کہا کہ ہاں پھر ہم رعب کی وجہ سے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ نہ پوچھ سکے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ اس لیے ہم نے مسروق سے کہا کہ تم پوچھو۔ انہوں نے کہا کہ مسروق رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دروازہ سے مراد خود عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ہم نے پھر پوچھا تو کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ آپ کی مراد کون تھی؟ انہوں نے کہا ہاں جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو جانتے ہیں اور یہ اس لیے کہ میں نے جو حدیث بیان کی وہ غلط نہیں تھی۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کو اندازہ ہو چکا تھا کہ عنقریب ان کو قتل کر دیا جائے گا جس کا اظہار انہوں نے خطبہ جمعہ میں کیا کہ اسلام کی خاطر جن سے انہوں نے جنگ کی وہ ان کو قتل کر دینا چاہتے ہیں. اس کی تفصیل مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ یوں ملتی ہے۔۔
مسند احمد 12228"جو یریہ بن قدامہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جس سال سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس سال میں نے حج کیا اور پھر میںمدینہ منورہ آیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا ایک سرخ مرغ نے مجھے ایک دو ٹھونگیں ماری ہیں۔ ، پھر ہوا یوں کہ واقعی ان پر قاتلانہ حملہ ہو گیا، جب لوگوں کو ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت دی گئی تو سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب ان کے پاس گئے، ان کے بعد باقی اہل مدینہ، ان کے بعد اہل شام اور ان کے بعد اہل عراق، میں بھی ان لوگوں میں موجود تھا، جب لو گ ان کے پاس جاتے تو ان کی تعریف کرتے اور رونے لگ جاتے، جب ہم گئے تو ان کے پیٹ کو ایک سیاہ پگڑی کے ساتھ باندھا گیا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ ہم نے کہا: آپ ہمیں وصیت فرمائیں، ہمارے گروہ کے سوا کسی نے وصیت کرنے کی درخواست نہیں کی تھی، ہماری درخواست سن کر انہوں نے کہا: تم اللہ کی کتاب کو لازم پکڑو، تم جب تک اس کی پیروی کرتے رہوگے، اس وقت تک گمراہ نہیں ہوگے۔ ہم نے کہا: آپ ہمیں مزید وصیت کریں، انھوں نے کہا: میں تمہیں مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتاہوں، لوگوں کی تعداد بڑھ رہی اور مہاجرین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور میں تمہیں انصار کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہوں، یہ وہ گھاٹی ہیں، جس میں اسلام نے آکر پناہ لی،میں تمہیں بادیہ نشینوں کے متعلق بھی وصیت کرتاہوں، کیونکہ وہ مسلمانوں کی اصل او ربنیادی جوہر ہیں اور میں تمہیں ذمی لوگوں کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہوں،تمہارے نبی نے ان کو امان دی ہے اور یہ لوگ تمہارے اہل وعیال کی روزی کا ذریعہ بھی ہیں، اب تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے زیادہ ہم سے باتیں نہیں کیں۔ شعبہ کہتے ہیں:اس کے بعد ایک بار میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے بدوؤں کے بارے میں کہا: میں تمہیں بادیہ نشینوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، کیونکہ یہ تمہارے بھائی ہیں اورتمہارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔۔"
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ذوالحج کے آخری عشرہ میں دوران نماز فجر ابو لولوفیروز نے قاتلانہ حملہ میں زخمی کر دیا جس میں ان کی شہادت ہوئی.  اس کی تفصیل صحیح بخاری 3700 میں یوں ملتی ہے
 "عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں  میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زخمی ہونے سے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا کہ وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہما کے ساتھ کھڑے تھے اور ان سے یہ فرما رہے تھے کہ ( عراق کی اراضی کے لیے، جس کا انتظام خلافت کی جانب سے ان کے سپرد کیا گیا تھا ) تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟ کیا تم لوگوں کو یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تم نے زمین کا اتنا محصول لگا دیا ہے جس کی گنجائش نہ ہو۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان پر خراج کا اتنا ہی بار ڈالا ہے جسے ادا کرنے کی زمین میں طاقت ہے، اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دیکھو پھر سمجھ لو کہ تم نے ایسی جمع تو نہیں لگائی ہے جو زمین کی طاقت سے باہر ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دونوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونے پائے گا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا تو میں عراق کی بیوہ عورتوں کے لیے اتنا کر دوں گا کہ پھر میرے بعد کسی کی محتاج نہیں رہیں گی۔ راوی عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ ابھی اس گفتگو پر چوتھا دن ہی آیا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ زخمی کر دیئے گئے۔ عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ جس صبح کو آپ زخمی کئے گئے، میں ( فجر کی نماز کے انتظار میں ) صف کے اندر کھڑا تھا اور میرے اور ان کے درمیان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی نہیں تھا عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب صف سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفیں سیدھی کر لو اور جب دیکھتے کہ صفوں میں کوئی خلل نہیں رہ گیا ہے تب آگے ( مصلی پر ) بڑھتے اور تکبیر کہتے۔ آپ ( فجر کی نماز کی ) پہلی رکعت میں عموماً سورۃ یوسف یا سورۃ النحل یا اتنی ہی طویل کوئی سورت پڑھتے یہاں تک کہ لوگ جمع ہو جاتے۔ اس دن ابھی آپ نے تکبیر ہی کہی تھی کہ میں نے سنا، آپ فرما رہے ہیں کہ مجھے قتل کر دیا یا کتے نے کاٹ لیا۔ ابولولو نے آپ کو زخمی کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ بدبخت اپنا دو دھاری خنجر لیے دوڑنے لگا اور دائیں اور بائیں جدھر بھی پھرتا تو لوگوں کو زخمی کرتا جاتا۔ اس طرح اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کر دیا جن میں سات حضرات نے شہادت پائی۔ مسلمانوں میں سے ایک صاحب ( حطان نامی ) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے اس پر اپنی چادر ڈال دی۔ اس بدبخت کو جب یقین ہو گیا کہ اب پکڑ لیا جائے گا تو اس نے خود اپنا بھی گلا کاٹ لیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں آگے بڑھا دیا ( عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ ) جو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب تھے انہوں نے بھی وہ صورت حال دیکھی جو میں دیکھ رہا تھا لیکن جو لوگ مسجد کے کنارے پر تھے ( پیچھے کی صفوں میں ) تو انہیں کچھ معلوم نہیں ہو سکا، البتہ چونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی قرآت ( نماز میں ) انہوں نے نہیں سنی تو سبحان اللہ! سبحان اللہ! کہتے رہے۔ آخر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بہت ہلکی نماز پڑھائی۔ پھر جب لوگ نماز سے پلٹے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! دیکھو مجھے کس نے زخمی کیا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تھوڑی دیر گھوم پھر کر دیکھا اور آ کر فرمایا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کے غلام ( ابولولو ) نے آپ کو زخمی کیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا، وہی جو کاریگر ہے؟ جواب دیا کہ جی ہاں، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ اسے برباد کرے میں نے تو اسے اچھی بات کہی تھی ( جس کا اس نے یہ بدلا دیا ) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں مقدر کی جو اسلام کا مدعی ہو۔ تم اور تمہارے والد ( عباس رضی اللہ عنہ ) اس کے بہت ہی خواہشمند تھے کہ عجمی غلام مدینہ میں زیادہ سے زیادہ لائے جائیں۔ یوں بھی ان کے پاس غلام بہت تھے، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا، اگر آپ فرمائیں تو ہم بھی کر گزریں۔ مقصد یہ تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم ( مدینہ میں مقیم عجمی غلاموں کو ) قتل کر ڈالیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ انتہائی غلط فکر ہے، خصوصاً جب کہ تمہاری زبان میں وہ گفتگو کرتے ہیں، تمہارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں اور تمہاری طرح حج کرتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر اٹھا کر لایا گیا اور ہم آپ کے ساتھ ساتھ آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگوں پر کبھی اس سے پہلے اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں تھی، بعض تو یہ کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ ( اچھے ہو جائیں گے ) اور بعض کہتے تھے کہ آپ کی زندگی خطرہ میں ہے۔ اس کے بعد کھجور کا پانی لایا گیا۔ اسے آپ نے پیا تو وہ آپ کے پیٹ سے باہر نکل آیا۔ پھر دودھ لایا گیا اسے بھی جوں ہی آپ نے پیا زخم کے راستے وہ بھی باہر نکل آیا۔ اب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ آپ کی شہادت یقینی ہے۔ پھر ہم اندر آ گئے اور لوگ آپ کی تعریف بیان کرنے لگے، اتنے میں ایک نوجوان اندر آیا اور کہنے لگایا امیرالمؤمنین! آپ کو خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی۔ ابتداء میں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا جو آپ کو معلوم ہے۔ پھر آپ خلیفہ بنائے گئے اور آپ نے پورے انصاف سے حکومت کی، پھر شہادت پائی، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس پر بھی خوش تھا کہ ان باتوں کی وجہ سے برابر پر میرا معاملہ ختم ہو جاتا، نہ ثواب ہوتا اور نہ عذاب۔ جب وہ نوجوان جانے لگا تو اس کا تہبند ( ازار ) لٹک رہا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس واپس بلا لاؤ ( جب وہ آئے تو ) آپ نے فرمایا: میرے بھتیجے! یہ اپنا کپڑا اوپر اٹھائے رکھو کہ اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دنوں چلے گا اور تمہارے رب سے تقویٰ کا بھی باعث ہے۔ اے عبداللہ بن عمر! دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے؟ جب لوگوں نے آپ پر قرض کا شمار کیا تو تقریباً چھیاسی ( 86 ) ہزار نکلا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ قرض آل عمر کے مال سے ادا ہو سکے تو انہی کے مال سے اس کو ادا کرنا ورنہ پھر بنی عدی بن کعب سے کہنا، اگر ان کے مال کے بعد بھی ادائیگی نہ ہو سکے تو قریش سے کہنا، ان کے سوا کسی سے امداد نہ طلب کرنا اور میری طرف سے اس قرض کو ادا کر دینا۔ اچھا اب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ عمر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے۔ امیرالمؤمنین ( میرے نام کے ساتھ ) نہ کہنا، کیونکہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہا ہوں، تو ان سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب نے آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر ) سلام کیا اور اجازت لے کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ آپ بیٹھی رو رہی ہیں۔ پھر کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اس جگہ کو اپنے لیے منتخب کر رکھا تھا لیکن آج میں انہیں اپنے پر ترجیح دوں گی، پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ آ گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اٹھاؤ۔ ایک صاحب نے سہارا دے کر آپ کو اٹھایا۔ آپ نے دریافت کیا کیا خبر لائے؟ کہا کہ جو آپ کی تمنا تھی اے امیرالمؤمنین! عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا الحمدللہ۔ اس سے اہم چیز اب میرے لیے کوئی نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن جب میری وفات ہو چکے اور مجھے اٹھا کر ( دفن کے لیے ) لے چلو تو پھر میرا سلام ان سے کہنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ) نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر وہ میرے لیے اجازت دے دیں تب تو وہاں دفن کرنا اور اگر اجازت نہ دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔ اس کے بعد ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا آئیں۔ ان کے ساتھ کچھ دوسری خواتین بھی تھیں، جب ہم نے انہیں دیکھا تو ہم اٹھ گئے۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب آئیں اور وہاں تھوڑی دیر تک آنسو بہاتی رہیں۔ پھر جب مردوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو وہ مکان کے اندرونی حصہ میں چلی گئیں اور ہم نے ان کے رونے کی آواز سنی پھر لوگوں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! خلافت کے لیے کوئی وصیت کر دیجئیے، فرمایا کہ خلافت کا میں ان حضرات سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک جن سے راضی اور خوش تھے پھر آپ نے علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف کا نام لیا اور یہ بھی فرمایا کہ عبداللہ بن عمر کو بھی صرف مشورہ کی حد تک شریک رکھنا لیکن خلافت سے انہیں کوئی سروکار نہیں رہے گا۔ جیسے آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی تسکین کے لیے یہ فرمایا ہو۔ پھر اگر خلافت سعد کو مل جائے تو وہ اس کے اہل ہیں اور اگر وہ نہ ہو سکیں تو جو شخص بھی خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ خلافت میں ان کا تعاون حاصل کرتا رہے۔ کیونکہ میں نے ان کو ( کوفہ کی گورنری سے ) نااہلی یا کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا ہے اور عمر نے فرمایا: میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کے احترام کو ملحوظ رکھے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے ساتھ بہتر معاملہ کرے جو دارالہجرت اور دارالایمان ( مدینہ منورہ ) میں ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے سے ) مقیم ہیں۔ ( خلیفہ کو چاہیے ) کہ وہ ان کے نیکوں کو نوازے اور ان کے بروں کو معاف کر دیا کرے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ شہری آبادی کے ساتھ بھی اچھا معاملہ رکھے کہ یہ لوگ اسلام کی مدد، مال جمع کرنے کا ذریعہ اور ( اسلام کے ) دشمنوں کے لیے ایک مصیبت ہیں اور یہ کہ ان سے وہی وصول کیا جائے جو ان کے پاس فاضل ہو اور ان کی خوشی سے لیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو بدویوں کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ اصل عرب ہیں اور اسلام کی جڑ ہیں اور یہ کہ ان سے ان کا بچا کھچا مال وصول کیا جائے اور انہیں کے محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول کے عہد کی نگہداشت کی ( جو اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں سے کیا ہے ) وصیت کرتا ہوں کہ ان سے کئے گئے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی حیثیت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے، جب عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو ہم وہاں سے ان کو لے کر ( عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے حجرہ کی طرف آئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سلام کیا اور عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ہے۔ ام المؤمنین نے کہا انہیں یہیں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ وہیں دفن ہوئے، پھر جب لوگ دفن سے فارغ ہو چکے تو وہ جماعت ( جن کے نام عمر رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے بتائے تھے ) جمع ہوئی عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: تمہیں اپنا معاملہ اپنے ہی میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دینا چاہیے اس پر زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنا معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کرتا ہوں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمٰن بن عوف کے سپرد کیا۔ اس کے بعد عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ( عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے ) کہا کہ آپ دونوں حضرات میں سے جو بھی خلافت سے اپنی برات ظاہر کرے ہم اسی کو خلافت دیں گے اور اللہ اس کا نگراں و نگہبان ہو گا اور اسلام کے حقوق کی ذمہ داری اس پر لازم ہو گی۔ ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون افضل ہے، اس پر یہ دونوں حضرات خاموش ہو گئے تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ حضرات اس انتخاب کی ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہیں، اللہ کی قسم کہ میں آپ حضرات میں سے اسی کو منتخب کروں گا جو سب میں افضل ہو گا۔ ان دونوں حضرات نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپ نے ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ آپ کی قرابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور ابتداء میں اسلام لانے کا شرف بھی۔ جیسا کہ آپ کو خود ہی معلوم ہے، پس اللہ آپ کا نگران ہے کہ اگر میں آپ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ عدل و انصاف سے کام لیں گے اور اگر عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ ان کے احکام سنیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے؟ اس کے بعد دوسرے صاحب کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی یہی کہا اور جب ان سے وعدہ لے لیا تو فرمایا: اے عثمان! اپنا ہاتھ بڑھایئے۔ چنانچہ انہوں نے ان سے بیعت کی اور علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے بیعت کی، پھر اہل مدینہ آئے اور سب نے بیعت کی۔"

حضرت عمر رضی اللہ ؑنہ کی تاریخ شہادت میں اختلاف کی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔

     

    حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (ابو حفص عمر بن الخطاب العدوي القریشي) لقب فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان - وفات: 7 نومبر، 644ء مدینہ میں)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد ہیں۔حضرت عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ آپ ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
        آپ کی   یوم شہادت کے بارے میں بہت سی متنازعہ روایات مشہور ہیں۔ عموما یکم محرم الحرام  ان کا یوم شہہادت  کے طور پر منایا جاتا ہے۔تاریخ کی کتب کسی ایک موقف پر متفق نہیں ۔ ہم یہاں کچھ روایات کا زکر کرتے ہیں۔
        تاریخ ِاسلام  کے مطابق چہار شنبہ 27 ذی الحجہ 23ھ کو آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تھے۔ اور یکم محرم سنہ 24ھ کو ہفتہ کے دن فوت ہوکر مدفون ہوئے۔ (تاریخ اسلام، جلداول۔ص440) اور یہی بات البدایۃ والنہایۃ جلدہفتم ص176 پر بھی موجود ہے۔
        حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :أميرالمؤمنين مشهور جم المناقب استشهد في ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين
وولي الخلافة عشر سنين ونصفا تقریب التہذیب
حضرت عمر کے ذوالحج میں فوت ہونے یہ واضح موقف ابن حجر نے اپنایا ہے ، اور ابن اثیر رحمہ اللہ نے تو صراحت کے ساتھ لکھا ہے :طعن عمر يوم الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين وكانت خلافته عشر سنين وخمسة أشهر وأحدا وعشرين يوما وقال عثمان بن محمد الأخنسي هذا وهم
توفي عمر لأربع ليال بقين من ذي الحجة وبويع عثمان يوم الاثنين لليلة بقيت من ذي الحجة
حضرت عمر محرم سے چار دم پہلے فوت ہو گئے تھے اورحضرت عثمان کی سوموار کو ہوئی جب ذوالحج کی ایک رات باقی تھی(اسد الغابۃ:3ج،545)
مشہور مورخ ابن خلدون نے لکھا ہے :
ولم يزل يذكر الله إلى أن توفى ليلة الاربعاء لثلاث بقين من ذى الحجة سنة ثلاث وعشرين
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی وفات 23 ذواالحج کو ہوئی۔
اور سیدنا امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت و فضائل پر نویں صدی ہجری ۔۔یعنی آج سے پانچ سو سال قبل لکھی گئی جامع ،مفصل کتاب(( محض الصواب في فضائل أمير المؤمنين عمر بن الخطاب )) میں ذہبی رحمہ اللہ کے اسی قول کو سر فہرست نقل کیا ہے :
’’ قال الذهبي: "استشهد يوم الأربعاء لأربع أو ثلاث بقين من ذي الحجة، سنة ثلاث وعشرين من الهجرة، وهو ابن ثلاث وستين سنة على الصحيح ‘‘
آپ بدھ کے روز  زوالحج کے آخری تین یا  چار دن  قبل  ہجرت کے 23ویں      سال شہید ہوۓ۔اس وقت آپ کی عمر تریسٹھ سال تھی۔
علاوہ ازیں درج ذیل کتب کے مطابق٢٦ذوالحج ٢٣ہجری کو آپ کی شہادت ہوءی۔
طبقات ابن سعد جلد ٣صفحہ ١٤٧
تاریخ طبری جلد ٣صفحہ ٦٣٥
تاریخ ابن خلدون جلد ١صفحہ ٣٨٤
تاریخ الماسودی جلد ٦صفحہ ٦٤٠
تاریخ ابن کثیر جلد ٧صفحہ  ٦٧٩
دوسری جانب یکم محرم  کو درست ماننے والے یان روایات کا  رد  یوں کرتے ہیں طبقات ابن سعد (ج 3 ص 123 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) میں  اول تو امام ابن سعد نے اس معاملے میں از خود کوئی واضح تاریخ معین نہیں فرمائی۔ دوسرا کہ انہوں نے اس باب کا عنوان ہی 

ہولو کاسٹ کیا ہے؟ حقیقت کیاہے اور کیا درپردہ سازش کارفرما ہے؟؟؟

یہ بنایا ہے کہ حضرت عمر کی مدت خلافت اور حضرت عمر کی عمر کے متعلق مختلف اقوال۔ پھر ان میں پہلے ترجمۃ الباب کی روایت کمزور ہے۔ ابوبکر بن محمد بن سعد نامی راوی کا تذکرہ کیا تو اس میں اختلاف نہیں کہ وہ مہجول الحال ہے۔ اس طرح سے 26 ذی الحجہ والی روایت نہایت کمزور ہے
امام طبری نے بھی ابن سعد کی طرح ان کی تاریخ وفات کے اختلاف کا تذکرہ کیا ہے۔ چنانچہ پہلا قول تو 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے اور یہ روایت بھی نہایت کمزور ہے کیونکہ اس کے دو راوی سلیمان بن عبد العزیز اور جعفر بن عبد الرحمن تو مجہول الحال ہیں اور ایک راوی عبد العزیز بن عمران متروک ہے۔ دوسرا قول عبد العزیز بن عمران کا ہی ہے جو کہ بغیر کسی جرح کے 1 محرم کا بتایا ہے۔ تیسرا قول وہی ابن سعد کا ہی ذکر کیا ہے کہ 26 ذی الحجہ کو ہوئی لیکن جیسا پہلے واضح ہو چکا کہ وہ روایت انتہائی کمزور ہے۔ چوتھا قول ابو معشر کا 26 ذی الحجہ کا ہے جو احمد بن ثابت الرازی کے طریق سے ہے جو کہ کذاب تھا۔ پانچواں قول ہشام بن محمد کا 27 ذی الحجہ کا ہے جو کہ بلا سند اور منقطع ہے جو نہایت ہی کمزور ہے
تاریخ ابن خلدون میں ابن خلدون نے اگرچہ 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے مگر بلا سند ہے اور اس کا مضمون تقریبا وہی ہے جو تاریخ طبری کا پہلا 

وحشی نے حضرت حمزہ کے قتل کا بدلہ کیسے چکایا؟؟؟

قول ہے جس کی سند نہایت کمزور ہے۔ اگرچہ یہ بھی نہایت ہی کمزور قول ہے ۔
چوتھا حوالہ تاریخ مسعودی کا ہے۔ علی بن حسین المسعودی شیعہ رافضی ہے جس کا قول ہمارے لئے حجت نہیں۔
تاریخ ابن کثیر مٰیں حافظ ابن کثیر نے کئی اقوال نقل کر کے پہلے قول ہی کو ترجیح دی ہے جو کہ 1 محرم الحرام کا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ کم و بیش تقریبا ہر مورخ نے ہی ان پر ابو لولو فیروز کے حملہ کرنے سے شہادت کے دن تک کا درمیانی حصہ تین یا چار دن ذکر کیا ہے۔ ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ حضرت عمر پر حملہ 26 یا 27 ذی الحجہ کو ہوا اور ان کی شہادت اس واقعہ کے تیسرے یا چوتھے دن بعد 1 محرم الحرام کو ہوئی اور حجرہ عائشہ میں اسی روز دفن ہوئے۔ اس بارے میں حافظ ابن کثیر کی صراحت و اضح ہے۔ واللہ سبحان وتعالی اعلم