اتوار، 16 دسمبر، 2018

سقوط ڈھاکہ پرحمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کیوں عوام سے پوشیدہ رکھی گئی

تحریر
انجینئر عمران مسعود 

61دسمبر 1971 کے سانحہ کو ہوے ایک عرصہ بیت گیا جب ملک پاکستان کا وہ بازو ہم سے الگ ہوا جہاں سے قیام پاکستان کی تحریک نے آل انڈیا مسلم لیگ کی شکل میں 1906 میں جنم لیا۔
یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس کا زخم. آج بھی تازہ ہے.۔مگر اس کے اسباب کیا تھے اس سے عام پاکستان کو ایک طویل عرصہ تک لاعلم رکھا گیا۔
میجر راجہ نادر پرویز کہتے ہیں کہ 17 دسمبر کی صبح وہ محاذ پر موجود تھے کہ ایک بھارتی کرنل اپنی جیپ میں آیا اور ان سے مخاطب ہوکر بولا کہ آپ ابھی تک یہاں ہیں جبکہ جنگ تو ختم ہو چکی اور ڈھاکہ میں ہتھیار پھینک دینے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں کسی قسم کے احکامات موصول نہیں ہوے لہذا ہم آخری دم تک لڑیں گے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا عجیب بات ہو سکتی ہے کہ دشمن کا ایک جوان ہمارے جوان کو خبر دے رہا ہو کہ سرنڈر ہو چکا ہے اور آپ ابھی تک محاذ پر موجود ہو. اہل عقل و دانش کے لیے اشارہ ہے کہ کتنا بڑا گھناؤنا کھیل پس پردہ کھیلا گیا۔
سانحہ کے اسباب کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے اپنی سفارشات پیش کیں مگر وہ رپورٹ کیا تھی اس کو 18 سال تک پوشیدہ رکھا کیا۔

یہ بھی پڑہیے۔پاکستان سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی کوشش

آخر کار جب یہ رپورٹ ایک بھارتی ہفت روزہ India Today کے اگست 2000 کے شمارے میں شائع ہوئی تو ایک انکشافات کے سلسلے نے جنم لے لیا. سانحہ کے 29 سال بعد اس رپورٹ کا شائع ہونا کسی تشویش سے کم نہیں تھا۔ ایک اہم سوال کا جنم لینا فطرتی تھا کہ یہ رپورٹ بھارت کیسے پہنچی اور اب تک پو شیدہ کیوں رکھی گئی. یہ سوال ابھی تک تشنہ طلب ہے۔
تک کہا جاتا رہا کہ اس میں کچھ پردہ نشہنوں کے نام ہیں جس کی وجہ سے اس رپورٹ کو شائع نا کیا جا سکا۔حتی کہ یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ اس رپورٹ کی کوئی کاپی موجود نہیں۔اس سے قبل خان لیاقت علی کا قتل اور ضیاالحق طیارہ کیس کی رپورٹ تا حال منظر عام پر نہ آ سکی۔یوں لگتا جیسے مجرم حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں یا خود اقتدار کے مزے لینے والے کچھ عناصر اس کا حصہ رہے۔یہ تو بہر حال ایک تلخ داستان ہے۔
دسمبر 1990 کو مشاہد حسین کے حوالے سے دی نیشن میں جب حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ چھپی تو ایک بار پھراس موضوع پر گفتگو کا آغاز ہوا۔ حمود الرحمن کمیشن نے چھ جرنیلوں کا کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی تھی جن میں جنرل یحییٰ خان,  جنرل عبدالحمید, لیفٹیننٹ جنرل ایس جی ایم ایم پیرزادہ,  میجر جنرل عمر,  لیفٹیننٹ جنرل گل حسن اور جنرل مٹھا شامل ہیں۔
ان پر فیلڈ مارشل ایوب خان سے اقتدار چھیننے کے لیے سازش کرنے کا الزام عائد کیا گیا   ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ ان افسروں کا مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں محاذوں پر مجرمانہ غفلت برتنے پر بھی کورٹ مارشل کیا جائے اور مقدمہ چلایا جائے۔

آسیہ بی بی کو کیوں رہا کیا گیا اور عالمی طاقتیں کتنا دباؤ دال رہی ہیں۔ یہ بھی پڑہیں

اس پر ردعمل میں جنرل ریٹائرڈ گل حسن نے دعوی کیا کہ  وہ ہر قسم کے مقدمات اور کورٹ مارشل کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ اس کے بقیہ کرداروں یعنی مجیب الرحمن, ذوالفقار علی بھٹو, یحییٰ خان اور جنر حمید کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ یہ رپورٹ ایک افسانہ اور قیاس آرائی سے بڑھ کر کچھ نہیں کیونکہ بھٹو مرحوم کے دور میں یہ رپورٹ پھاڑ دی گئی ۔
ایک اخباری انٹرویو میں جب ان سے اس سانحہ میں بھٹو کے کردار پر سوال کیا گیا تو ان کو کہنا تھا کہ اگر بھٹو اس میں ملوث نہ ہوتے تو وہ اس رپورٹ کو تمام سربراہان کو بھیجتے اور اگر فوج ملوث نہ ہوتی تو ضیاالحق کمیشن کے سامنے پیش ہوتے۔ انہوں نے مزید واضح کیا تھا اس کمیشن نے ان سے چار گھنٹے تک سوالات کیے تھے جن کے انہوں نے جوابات دیے. بعد ازاں اس کا مسودہ ٹایپ شدہ حالت میں پڑھنے کے لیے ان کو فراہم کیا گیا جو انہوں نے پڑھ کر واپس کر دیا تھا مگر اب یہ رپورٹ اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں. جو کچھ بھی اب کہا جا رہا ہے وہ محض افسانہ یا قیاس آرائی ہے۔اس رپورٹ پر مفصل تجزیہ اور کرداروں کی تفصیل  طارق اسماعیل ساگر کی کتاب"حمودالرحمن کمیشن رپورٹ آخری سگنل کی کہانی " میں مل جائے گی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہآج اس رپورٹ کے پیش ہوے 36 برس کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ماضی کے تمام کمیشن رپورٹوں کی طرح یہ بھی قصہ ماضی بن چکا ہے.


16 december, saqoot e dhaka, east pakistan , hamood urehman conission zulfiqar ali bhutto,