جمعہ، 21 فروری، 2020

مسئلہ فدک . ایک علمی جائزہ ... تحریر :انجینئر عمران مسعود



گزشتہ دنوں نجی ٹی وی چینل پر خاتون وکیل سیفی علی خان نے ایک ٹاک شو میں انصاف سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ انصاف تو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ کو بھی نہیں ملا جو کہ صریحاْ مسئلہ فدک کی طرف اشارہ تھا. یہ ایسا مسئلہ ہے جو صدیوں سے سنی اور شیعہ کے درمیان وجہ نزع بنا آرہا ہے. پھر ذاکرین نے جس طرح مسالہ لگا کر اس واقعے کو بیان کیا اور خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس نے انتہا پسندی کی فضا کو جنم دیا ہے. اور آج کل سوشل میڈیا پر سنی شیعہ اختلاف کی فضا بنی ہوئی ہے.
اس مسئلے میں دونوں فریق امت کی بہترین شخصیات شامل ہیں لہذا اس کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے محتاط رویہ اپنانا چاہیے. اس موضوع پہ اپنی گزارشات رکھنے سے قبل ایک تلخ حقیقت جان لینی چاہیے کہ زیادہ تر لوگ اپنی عقیدت کی بنیاد پر روایات اور احادیث کو دیکھتے ہیں نہ کہ علمی بنیاد پر اور اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سی من گھڑت روایات بھی ہمارے نظریات میں شامل ہو گئی ہیں. جو روایت ہماری عقیدت کے خلاف ہوتی ہے وہ رد کر دی جاتی جبکہ اپنے عقیدت کے موافق باطل روایات بھی قبول کر لی جاتی ہیں اور اس طرح کی باطل روایات فریقین کی کتابوں میں بکثرت ملتی ہیں. منبروں اور مجالس میں بھی بیان ہوتی ہیں. اس مناظرانہ ماحول میں حقائق کہیں دب کے رہ جاتے ہیں.
فدک کے معاملے میں تین آرا ہیں. ہم ان کا الگ الگ جائزہ لیں گے. اور فرقہ وارانہ تعصب سے ہٹ کر اس معاملے کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے. 
1 فدک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو نبی ﷺ نے ہبہ کردیا تھا جو کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حکومتی تحویل میں لے لیا تھا.
2 فدک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا وراثتی حق تھا لیکن انبیا کی وراثت والی حدیث ضعیف ہے
3 انبیا کی وراثت والی حدیث صحیح ہے لیکن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سے لاعلم تھی یا بھول گئی تھیں تو حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے یاد کروائی اور واپس پلٹا دیا.

پہلا موقف تو اسی وقت باطل ہوجاتا ہے جب اس کی تائید میں مذکورہ روایت اصول محدثین پہ موضوع ٹھہرتی ہے. سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت ہے کہ:
(( لَمَّا نَزَلَت ھٰذِہِ الآیَةُ :" وَآتِ ذَا القُربٰی حَقَّہُ " (بنی إسرائیل17: 26) دَعَا رَسُولُ ﷺ فَاطِمَةَ فَأَ عطَاھَا فَدَکَ ))
” جب یہ فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا کہ "اپنے عزیز و اقارب کو ان کا حق دیجئے"، تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلا کر باغِ فدک دے دیا۔“
(مسند البزّار(کشف الأستار): 2223)
موضوع (من گھڑت) :یہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ:
اس کے راوی عطیہ عوفی کو جمہور محدثینِ کرام نے "ضعیف "قرار دیا ہے۔
(تھذیب الأسماء واللغات للنوي:48/1، طرح التثریب لابن العراقي: 42/3، مجمع الزوائد للھیثمي: 412/1، البدرالمنیر لابن الملقن: 463/7، عمدۃ القاري للعیني: 250/6)
اس کو امام یحییٰ بن سعید قطان، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی، امام ابن عدی، امام دارقطنی، امام ابن حبان اور علامہ جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہ نے "ضعیف" قرار دیا ہے۔
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہوگیا تھا، جیساکہ :
٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عطیہ عوفی کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام نے اتفاق کرلیا ہے۔" (الموضوعات: 386/1)
٭نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے۔" (المغنی في الضعفاء: 62/2)
٭حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ باتفاقِ محدثین ضعیف ہے۔" (البدر المنیر: 313/5)
عطیہ عوفی تدلیس کی بُری قِسم میں بُری طرح ملوث تھا۔
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ کمزور حافظے والا تھا اور بُری تدلیس کے ساتھ مشہور تھا۔" (طبقات المدلّسین، ص: 50)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ زیر بحث روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: "یہ روایت باطل ہے، اگر واقعی ایسا ہوتا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس چیز کا مطالبہ کرنے نہ آتیں جو پہلے سے ان کے پاس موجود اور ان کی ملکیت میں تھی۔" (میزان الاعتدال: 135/3)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اگر اس روایت کی سند صحیح بھی ہو تو اس میں اشکال ہے، کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور فدک تو سات ہجری میں خیبر کے ساتھ فتح ہوا۔ کیسے اس آیت کو اس واقعہ کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔" (تفسیر ابن کثیر:69/5م بتحقیق الدکتور سلامۃ)
تنبیہ: عطیہ عوفی اپنے استاذ ابو سعید محمد بن السائب الکلبی (کذاب) سے روایت کرتے ہوئے "عن أبي سعید" یا "حدثني أبو سعید" کہہ کر روایت کرتے ہوئے یہ دھوکا دیتا تھا کہ وہ سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کررہا ہے۔ یہ(والی) تدلیس حرام اور بہت بڑا فراڈ ہے۔ یاد رہے کہ عطیہ عوفی اگر عن ابی سعید کے ساتھ الخدری کی صراحت بھی کردے تو اس سے الکلبی ہی مراد ہے، سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ مراد نہیں ہیں۔
تفصیل کے لیے دیکھئے کتاب المجروحین لابن حبان (176/2)

صحیح حدیث: متواتر حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"ہماری میراث نہیں ہوتی۔ ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے۔" (صحیح البخاری:6727، صحیح مسلم: 1761، عن أبي ھریرۃ).
یہ صحیح حدیث "ہم انبیاء کی جماعت وراثت نہیں چھوڑتے"۔ صحیح سند کے ساتھ شیعہ کے ہاں بھی ثابت ہے!

کلینی نے الکافی میں ابو عبداللہ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

"بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء کوئی دینا اور درہم ورثہ میں نہیں چھوڑتے بلکہ وہ علم ورثہ میں چھوڑتے ہیں، جس نے علم میں سے کچھ حاصل کرلیا، اس نے بہت بڑا حصہ حاصل کرلیا۔
[الکافی ۳۲/۱]

مجلسی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے:
یہ حدیث حسن اور موثوق ہے، جو کہ کسی بھی طرح صحیح سے کم نہیں۔
[مراة العقول ١١١/۱]

خمینی نے اس روایت سے استشہاد پیش کیا ہے اور کہا ہے:
"اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
[الحكومة الاسلامية ۹۳].
لہٰذا اس حدیث پہ طعن کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ انکار حدیث کا معاملہ کہاں تک جاتا ہے. پھر اسی حدیث کی توثیق مولا علی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے جب وہ اور حضرت عباس بنو نضیر اور مدینہ کے مال فے معاملے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے. حضرت عمر نے وراثت انبیا کی حدیث کی رکھی جس کی تصدیق دونوں احباب نے بھی کی. (صحیح مسلم 4577)
عمر رضی اللہ عنہ نے جس بات سے دلیل قائم کی وہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین «صفایا» ( منتخب مال ) تھے: بنو نضیر، خیبر، اور فدک، رہا بنو نضیر کی زمین سے ہونے والا مال، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ( ہنگامی ) ضروریات کے کام میں استعمال کے لیے محفوظ ہوتا تھا ۲؎، اور جو مال فدک سے حاصل ہوتا تھا وہ محتاج مسافروں کے استعمال کے کام میں آتا تھا، اور خیبر کے مال کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصے کئے تھے، دو حصے عام مسلمانوں کے لیے تھے، اور ایک اپنے اہل و عیال کے خرچ کے لیے، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال کے خرچہ سے بچتا اسے مہاجرین کے فقراء پہ خرچ کر دیتے۔ (سنن ابی داؤد 2967)
اس لحاظ سے اگر ان تینوں مالوں کو وراثت تسلیم کیا جائے تو تقسیم لازم ہے لیکن چونکہ یہ تینوں مال اوقاف کے ذمرے میں آتے ہیں اس لیے صرف انتظام یا سپردگی ہی ہوگی. چاہے تو ریاست خود انتظام لے یا کسی کو اس کا منتظم بنا دے. لہٰذا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مطالبہ اس کے انتظام کا تھا نہ کے اس میں سے اپنے حصے کا جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وراثت انبیا والی حدیث سنائی اور کہا کہ اس میں سے اہلبیت کا حصہ ملتا رہے گا لیکن علاقہ ان کے زیر انتظام نہیں دے سکتا. جسے حضرت فاطمہ سن کے ناراض ہوئیں اور کلام نہیں کیا.
اب یہاں اعتراض کرنے والوں نے حضرت ابوبکر صدیق کی ذات پہ تنقید کی کہ معاذ اللہ شائد اپنے ذاتی مفاد کے لیے انہوں نے اس علاقہ کی حوالگی سے انکار کیا. حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ فدک ان وفات کے بعد حضرت عمر کی تحویل میں آیا نہ کے خاندان ابوبکر کے.
دوسرا یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق سنت کی پیروی میں بہت سخت تھے اور اس سے ہٹ کر کوئی اقدام نہیں گوارا کرتے تھے. جس کی کچھ مثالیں یہاں بیان کرتا ہوں.
نبی کریمﷺ کی وفات کے وقت لشکر اسامہ روانگی کو تیار تھا جسے صحابہ نے تاخیر کے لیے کہا لیکن انہوں نے یہ کہ کے نہیں روکا کہ جسے رسول اللہ ﷺ روانہ کر چکے میں کیوں روکوں.
اسی طرح جمع قرآن کے مشورے میں بھی ان کا جواب یہی تھا کہ جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا میں کیوں کروں.
اسی طرح اور بہت سی مثالیں ان کی سیرت میں ملتی ہیں کہ وہ ہر اقدام کرنے سے قبل رسول اللہ ﷺ کی سنت کو دیکھتے تھے. اسی لیے فدک کے معاملے میں بھی ان کا موقف تھا کہ بطور سربراہ ریاست اس علاقہ کے انتظام کو بطور ریاستی املاک کے استعمال کرتے تھے لہٰذا بطور خلیفہ اس کے منتظم بھی وہی ہوں گے. اور حضرت فاطمہ کی ناراضگی بھی بتقاضا ئے بشریت تھی. نہ ہی یہ کفر اسلام کا مسئلہ تھا. اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ک بعد اس علاقہ کا خاندان ابی بکر کی بجائے خلافت کی زیر انتظام ہی رہنا اس کی دلیل ہے کہ ان کو اس میں کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا. بنو امیہ کے دور میں اس علاقہ کو خاندانی جاگیر بنا دیا گیا جو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے آل فاطمہ کے سپرد کر دی لیکن بنو امیہ کے دور میں ہونے والے اقدامات کا الزام حضرت ابوبکر صدیق پہ ڈالنا بھی ظلم ہے. کیونکہ ان کی ذات اور اولاد نے اس علاقہ سے کوئی منفعت حاصل نہیں کی.
دوسری جانب حضرت علی کا بھی ان کی بیعت کر لینا اس معاملے کو واضح کرتا ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے کفر یا نفاق لازم نہیں آتا.
دوسری جانب حضرت فاطمہ کی ناراضگی کے معاملے سے حضرت ابوبکر کی ذات نشانہ بنانا بھی ایک جزباتی اور غیر منصفانہ روش ہے.
قرآن میں حضرت موسی و ہارون کا جھگڑنے کا واقعہ موجود ہے لیکن اس کی بنیاد پہ حضرت ہارون علیہ السلام پہ نبی کی نافرمانی کا معاذاللہ فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا. اسی طرح نبی ﷺ نے جو فرمایا کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اس حدیث کا متن کچھ یوں ہے
مسور بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر فرما رہے تھے کہ ہشام بن مغیرہ جو ابوجہل کا باپ تھا اس کی اولاد ( حارث بن ہشام اور سلم بن ہشام ) نے اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کرنے کی مجھ سے اجازت مانگی ہے لیکن میں انہیں ہرگز اجازت نہیں دوں گا یقیناً میں اس کی اجازت نہیں دوں گا ہرگز میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ البتہ اگر علی بن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہیں ( تو میں اس میں رکاوٹ نہیں بنوں گا ) کیونکہ وہ ( فاطمہ رضی اللہ عنہا ) میرے جگر کا ایک ٹکڑا ہے جو اس کو برا لگے وہ مجھ کو بھی برا لگتا ہے اور جس چیز سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ (صحیح بخاری5230)
ایک جگہ یہ بھی الفاظ ہیں کہ اللہ کے رسول اور دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں. (صحیح مسلم 3517).
لہٰذا ان الفاظ کے مخاطب حضرت علی کی ذات بنتی ہے لیکن حضرت علی کے اس فیصلے سے ان پر کوئی حرف نہیں آتا. دوسرا یہ کہ اگر اس سے مراد وہی ہے جو حضرت ابوبکر پر تنقید کرنے والے لیتے ہیں تو پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کبھی بھی ان کو منافق جانتے ہوئے بیعت نہ کرتے اور نہ ہی بعد میں اس نظام کا حصہ بنے رہتے. انہوں نے جب بھی کسی بات یا فیصلے کوغلط سمجھا اس کو علی الاعلان غلط کہا. جس کی بڑی مثال حج تمتع پر جب حضرت عثمان نے پابندی لگانا چاہی تو انہوں نے کھل کر مخالفت کی اور کہا کہ میں آپ کے کہنے پہ یہ سنت نہیں چھوڑ سکتا اور سب سے پہلے میں تمتع کی نیت کرتا ہوں.
لہٰذا ایسی اولولعزم شخصیت کا فدک کے معاملے کو کفر اسلام کا مسئلہ نہ بنانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس مسئلہ کی آڑ لے کر ان ہستوں پر تنقید کرنا ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے.

1 تبصرہ: