دنیا کی تاریخ میں دوہی ایسے ممالک وجود میں آئے جو کسی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئے۔ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل۔ پاکستان اسلام کے نام پر جبکہ اسرائیل یہودیت کے نام پر۔لہٰذا بطور ایک اسلامی ریاست پاکستان کے آئین میں عقیدہ ِ رسالت وختمِ نبوت ﷺ ایک بنیادی اساس کا حامل ہے۔ اور محبتِ رسول ﷺ ایک مسلمان کا بنیادی اثاثہ ہے۔اور ایک مسلمان چاہے جتنا بھی گناہ گار ہو توہینِ رسالت ﷺ برداشت نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ صرف امت محمد ﷺ کا خاصہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنے نبیﷺ سے ایمانی لگاؤ رکھتی ہے بلکہ ایک جذبات کے رشتے سے بھی منسلک ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اب آتے ہیں آسیہ بی بی توہینِ رسالت ؐ کیس کی جانب جو کہ ایک حساس نوعیت اختیار کر چکا ہے جبکہ بہت سے تضادات نے اس کو اور بھی مشکوک بنا دیا ہے۔جس کی وجہ سے ایک عام مسلما ن کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ آیا کون حق پر ہے۔ دوسری جانب حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ملکی حالات میں ایک بھونچال برپا کر دیا ہے۔جس سے ایک بے یقینی کی سی کیفیت نے جنم لے لیا ہے۔
ملک میں دھرنوں اور احتجاج نے جہاں کاروبارِ زندگی کو معطل کیا وہیں جلاؤ گھیراؤ نے اربوں کا نقصان کیا۔ گویا سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ دوسری جانب ایک طبقہ وہ ہے جس نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اس فیصلے کے خلاف ہونے والے احتجاج کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ جس کے جواب میں ججوں اور فوجی جرنیلوں کے واجب القتل تک کے فتاویٰ جاری ہوئے۔
اس صورت حال میں ایک وہ طبقہ سامنے آیا جو کہ آسیہ کو واجب القتل سمجھتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جس کا اصرار تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے اور اس کو برقرار رکھنا چاہیے ۔ حکومت کی جانب سے بھی نا عاقبت اندیشی کی مثال دیکھیں کہ یہ اعلان کر دیا گیا کہ یہ ایک چھوٹا سا طبقہ ہے لہذا ہم حکومت کی رٹ قائم کریں گے۔جس اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
جس کے نتیجے میں ایک ملک گیر احتجاج نے شدت سے جنم لے لیا۔ حرمتِ رسول کوئی چھوٹا سا مسئلہ نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے دین ایمان کا مسئلہ ہے اور احتجاج یقیناً ایک فطری عمل تھا۔
اس احتجاج میں شدت آنے سے بہت سے شر پسند عناصر نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور حسب معمول املاک کو نقصان پہنچایا۔ یہ وہی عناصر ہیں جو گزشتہ تاریخ میں ہونےوالے احتجاج اورتحریکوں میں امن امان اوراملاک کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے۔ ظاہر ہے عام عوام بھی ان کے ہاتھوں استعمال ہوتی آئی ہے اور اس بار بھی ہوئی۔
افسوس کی بات ہے کہ وہ طبقہ جو خود کو لبرل اور پڑھا لکھا سمجھتا ہے اس نے انہی واقعات کو بنیاد بنا کر علماء اور مذہبی طبقے کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ جو کہ حقائق کے با لکل منافی ہے۔ بلکہ ملکی تاریخ سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے. زیادہ دور مت جائیے بینظیر کے قتل کے بعد 3 دن تو جیسے حکومت کا وجود ہی ختم ہو گیا ہو۔ اےٹی ایم تک لوٹ لی گئیں۔ ٹرینیں جلا دی گئیں۔ اسی طرح سیاسی تحریکوں میں دیکھیں تو سپریم کورٹ پر چڑھائی، پی ٹی وی پر حملہ اورشہر بند کرنے تک کے اقدامات نے ملک کو کتنا نقصان پہنچایا۔ ان اقدامات کی کوئی حمایت نہیں کرتا اور نہ ان عناصر کا کسی تحریک سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر توہینِ رسالت کے معاملہ میں بھی جو لوگ نکلے وہ بھی ایمانی جذبہ سے مغلوب ہو کر نکلے اور حسبِ سابق جیسے یہ تحریک زور پکڑتی گئی حالات قابو سے باہر ہوتے گئے۔ آسیہ مسیح کا جو بھی فیصلہ آتا ہے یہ ایک الگ داستان ہے جسے کسی دوسرے موضوع میں زیرِ بحث لائیں گے مگر یہ طے ہے کہ مغربی میڈیا بھی اس کیس میں گہری دلچسپی رکھتا ہے جس کا ثبوت مغرب کا اس فیصلے پر رد عمل ہے۔
بہر حال عرض کرنے کا مقصد ہے کہ ناموس رسالت کے لیے احتجاج کو ان فتنہ پرور سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر تنقید اور مذاق بنانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ کہیں انجانے میں علماء اور مذہب کا مذاق کو نہیں اڑا رہے۔ اختلاف ہر انسان کا حق ہے مگر اپنے اختلاف کو مخالفت میں مت تبدیل کیجیے۔
علماء اور تمام مسلمانو سے بھی گزارش ہے کہ ان شر پسند عناصر کو بے نقاب کریں کیونکہ یہی عناصر ناموسِ رسالت کے پاکیزہ جذبہ لیے تحریک کو تار تار کر رہے ہیں۔ اور آخر میں حکومت کو چاہئیے کے اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اس کو ڈنڈے اور بیرونی دباؤ کی بجائے علماء کی باہمی مشاورت اور علمی طریقے سے حل کیا جائے۔ یہ مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ دین ایمان کا مسئلہ ہے اس لیے سب کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ امت پہلے ہی اس معاملے زخمی ہے اور نہ جانے کتنے لوگ جان بھی گنوا بیٹھے ہیں اس لیے ان کے زخموں پر نمک مت چھڑکیے۔
asia masih, asia bibi, cheif justice, tlp, khadim rizvi,mumtaz qadri, lahore dharna, blasphemy, saqib nisar, afzal qadri
good job
جواب دیںحذف کریںShukrya bro
حذف کریں