ایک بہت ہی معروف ٹی وی اینکر فرما رہے تھے ک عمران خان نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ سعودی عرب میں منعقدہ عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران پاکستان کے مسائل کو زیرِبحث لے کر آئے ۔ جہاں ایک عالمی فورم پر انہوں نے اس بات کو واضح طور تسلیم کیا کہ پاکستان میں کرپشن عروج پر ہے۔ سیاستدانو ں نے ملک کو لوٹا ہے۔ ملک کو اس وقت قرض کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس بھی شاید جائیں. یہ وہ باتیں ہیں جو ایک عالمی فورم پر شاید بیان نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ اس موقع پر پاکستان کے مثبت پہلو اجاگر کرنے چاہیے تھے. منفی پہلو بیان کرنے سے فائدہ کی بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہے. اس موقع پر سرمایہ کاروں کو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ترغیب دینا تھی۔
لیکن وزیراعظم پاکستان اس موقع پر سربراہ مملکت کی بجائے قائد حزب اختلاف کے روپ میں نظر آئےگویا موجودہ حکومت سے مایوس ہوں۔
ایک لمحے کے لیے تو موصوف کی ان باتوں میں وزن نظر آتا ہے لیکن زرا غور کریں تو یہ اعتراض باطل ہے۔ اس وقت عالمی میڈیا ہر بات سے باخبر ہے۔گزشتہ حکومتوں کے کرپشن اسکینڈلز کس سے پوشیدہ ہیں۔ اور اس بات سے سرمایہ کاروں سے زیادہ کون واقف ہو گا کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ کیا عوامل تھے۔ آج ان میگا کرپشن سکینڈلز کے سامنے آنے کے بعد جہاں عدالتوں پر اعتماد میں اضافہ ہوا وہاں سرمایہ کار بھی قوانین میں نرمی کے منتظر ہیں۔ وزیراعظم کا گزشتہ نقائص بیان کرنے کا مقصد ملک کی معیشت کا بھیانک رخ دکھانا نہیں تھا بلکہ ان عوامل کی نشاندہی کرنا تھا جو سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ تھے اور ساتھ میں اس عزم کا اظہار تھا کہ حکومت ان مسائل کا ادراک کر کے ان پر قابو پانے کے اقدامات کرے گی۔ یہ عزم گویا آنے والے دنوں میں سرمایہ کار برادری کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی۔ جس کے نتائج اگلے ہی روز برآمد ہونا شروع ہو گئے جب کہ ایس ای 100 انڈیکس نے 39000 پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کر لی۔ روپےکی قدر بھی استحکام کی جانب گامزن ہوئی۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں معیشت بھی استحکام کی جانب رواں دواں رہے گی۔
imran khan, pti, prime minister, saudi arab, investment conference 2018