بدھ، 21 نومبر، 2018

پاکستان سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی کوشش



تحریر
انجینئر عمران مسعود 

گزشتہ دنوں ایک خاتون رکن قومی اسمبلی کی جانب سے ایک تجویز پیش کی گئی کہ اسرائیل کو اب تسلیم کر لینا چاہیے۔ ان کی تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ ہم یہودیوں کے بارے اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ  وہ ہمارے دشمن ہیں۔ ہمیں ان کو دوست بنانا چاہیے اور دلیل کے طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول پیش کیا کہ دشمن پر قابو پانے کے لیے اسے دوست بنا لینا چاہیے۔ بظاہر ان کی سب باتیں انسانی ہمدردی کے تحت لگتی ہیں لیکن درحقیقت تاریخ اور عالمی منظر نامے سے بالکل لا علمی اور پردہ فرا موشی کا مرکب ہے۔
 یہ بات ما فوق العقل ہے کہ انہوں نے تاریخ کی کن کتب سے استفادہ کیا۔ اگر آپ صرف گوگل پر ہی سرچ کر لیتی تو یہودیوں کا کردار سامنے آجاتا اور اسرائیل کے قیام کے مقاصد بھی عیاں ہو جاتے۔تفصیل میں جانے سے قبل پہلے اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بین گریون(David Ben Gurion) کے الفاظ ہی کافی ہیں جو بعد میں جیوش کرونیکل 9 اگست 1967 میں شائع ہوے۔
"عالمی زائینست تحریک کو پاکستان سے خطرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور اس کا پہلا ٹارگٹ پاکستان ہونا چاہیئے۔ کیونکہ اس نظریاتی ملک(اسرائیل) کی بقا کے لیے پاکستان ایک خطرہ ہے۔" 
یہ الفاظ تب کے ہیں جب پاکستان میں جوہری پروگرام کا کوئی وجود نہیں تھا اور سیاسی خلفشار کا شکار تھا۔ پاکستان چونکہ ایک نظریاتی مملکت ہے اور اس کی اہمیت اس لیے بھی ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ آخری معرکہ حق و باطل جس میں دجال قتل ہوگا وہ اسرائیل کی سرزمین پر ہو گا اور یہودیوں سے لڑنے کے لیے  فوجیں ایران ، افغانستان اور پاکستان سے  نکلیں گی۔ اس کی بنیاد یہ حدیث ہے جبکہ بائبل میں بھی  اس کا اشارہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے، ان جھنڈوں کو کوئی چیز پھیر نہیں سکے گی یہاں تک کہ ( فلسطین کے شہر ) ایلیاء (موجودہ یروشلم )میں یہ نصب کیے جائیں گے“۔  گویا مسلمانوں کی اسرائیل پر فتح کا واضح اشارہ ہے۔
 اس وقت یہودی,  عیسائی اور مسلمان تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے خاتمہ کے قریب ایک عظیم الشان جنگ لڑی جائے گی جس کو Armageddonیا معرکہء ہر مجیدون کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
 "ہر " عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے پہاڑ جبکہ مجیدون فلسطین کی وہ وادی ہے آجکل اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔ یہ ماضی میں بھی حق و با طل کے معرکوں کا مرکز رہا یے۔ اس پر جو قبضہ کر لے وہ ناقابلِ تسخیر تصور کیا جا تا ہے۔
اسے بائبل کی زبان میں ’’ہر مجدون‘‘ (Armageddon) بھی کہا جاتا ہے اور غزہ پر بار بار کی اسرائیلی وحشت اور بربریت اُسی جنگ کی ریہرسل ہے۔ یہودی اس جنگ کے ذریعے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کو قائم کرنا چاہتے ہیں اور گریٹر اسرائیل میں مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک شامل ہیں۔ پھر یہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الضحرہ (Dome of the Rock) کو شہید کرنا اور پھر اس جگہ پر تھرڈ ٹمپل یعنی ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنا ہے اور اس میں تخت داود کو لا کر رکھنا ہے جو اس وقت انگلستان میں ’’ویسٹ منسٹرایبے‘‘ میں رکھا ہوا ہے۔ یہ وہ تخت ہے جس پر حضرت داؤد علیہ السلام کی تاجپوشی کی گئی تھی اور صیہونیت کا چوتھا اور آخری مقصد اور ہدف عالم اسلام کے تمام وسائل بالخصوص تیل پر قبضہ کرنا ہے۔ صیہونیت کے تمام اہداف ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مگر ان شاء اللہ مستقبل میں ’’گریٹر اسرائیل‘‘ ہی یہودیوں کا Greater Graveyardیعنی عظیم قبرستان بنے گا۔
 احادیث میں اس کو الملحمۃ الکبریٰ اور ہندو ویدوں میں مہا ید کے نام سے تذکرہ موجود ہے۔
 یہودی اور عیسائی اس جنگ کے بارے اتنے پر یقین ہیں کہ باقاعدہ طور پر جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ امریکہ کے سر براہان اسی جنگ کو مد نظر رکھتے ہو ئے اپنی پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ حتی کہ امریکی صدر رونلڈ ریگن نے اپنی الیکشن کمپیں میں برملا کہا تھا کہ
"ہماری موجودہ نسل ہر مجدون کا معرکہ ضرور دیکھے گی۔" یہاں تک کہ 1999 میں میں مسجد اقصی کو شہید کر کے اس جنگ کو شروع کرنے کی کوشش بھی کی جا چکی ہے۔ مسجد اقصٰی کی بنیادیں کھوکھلی کی جا چکی ہیں محض آثارِ قدیمہ کی تلاش کا بہانہ بنا کر یہ سب ایک منصوبہ بند ی کے تحت ہو رہا ہے۔ اور ان سرنگوں تک کسی عام شخص کو رسائی نہیں دی جاتی۔
 یہودیوں کے مطابق ان کا نجات دہندہ اسرائیل کی سرزمین پر آئے  گا۔ بقول ان کے حضرت دانیال علیہ السلام آئیں گے جس کے پوری دنیا پر ان کی حکومت ہو گی۔ عیسائیوں کے مطابق حضرت عیسٰی علیہ السلام  ان کو آسمان پر بادلوں میں لے جائیں گے جبکہ احادیث کی روشنی میں دجال یہودیوں کا پیشوا ہو گا جسے حضرت عیسٰی علیہ السلام قتل کریں گے۔

 یہ بھی پڑہیے۔

قائدِ اعظم کی حقیقی سالگرہ 25دسمبر نہیں بلکہ۔۔۔۔۔




 چنانچہ اس جنگ میں کامیابی کے لیے سب یہودی اسرائیل پر قابض اور آباد کاری کر رہے ہیں۔ اس کی پیش گوئی احادیث میں یوں ملتی ہے۔
"حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اصبہان کے یہودیوں میں سے ستر ہزار ( یہودی ) دجال کی پیروی کریں گے ، ان ( کے جسموں ) پر سیاہ چادریں ہوں گی ۔ "
( 7392 صحیح مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت المقدس کی آبادی مدینہ کی ویرانی ہو گی، مدینہ کی ویرانی لڑائیوں اور فتنوں کا ظہور ہو گا، فتنوں کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح ہو گی، اور قسطنطنیہ کی فتح دجال کا ظہور ہو گا پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس شخص یعنی معاذ بن جبل کی ران یا مونڈھے پر مارا جن سے آپ یہ بیان فرما رہے تھے، پھر فرمایا: یہ ایسے ہی یقینی ہے جیسے تمہارا یہاں ہونا یا بیٹھنا یقینی ہے ۔
( سنن ابی داؤد 4294)
آج اسی پیش گوئی کے مصداق گریٹر اسرائیل کے مشن پر آج پورا مغرب اور امریکہ کاربند ہے۔         سیدنا عوف بن مالک اشجعی انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور سلام کہا، آپ نے پوچھا : عوف ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: اندر آجاؤ۔ میں نے کہا: سارا آجاؤں یا کچھ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : پورے کے پورے ہی آجاؤ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عوف! قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے چھ بڑی بڑی علامتوں کو شمار کرو، پہلی علامت میری موت ہے۔ یہ سن کر میں رونے لگ گیا، پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے چپ کرانے لگ گئے، میں نے کہا: یہ ایک ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دوسری بیت المقدس کی فتح ہے۔ میں نے کہا: یہ دوسری ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیسری علامت یہ ہے کہ میری امت میں اس قدر زیادہ موتیں ہوں، جیسے بکریاں موت کی وباء میںمرنے لگتی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : یہ تیسری ہو گئی، اور چوتھی علامت یہ ہے کہ ایک بڑا فتنہ ہو گا، یہ چوتھی ہو گئی اور پانچواں یہ کہ دولت اس قدر عام ہوجائے گی کہ جب کسی کو ایک سو دینار دئیے جائیں گے تو وہ ان کو قلیل سمجھتے ہوئے غصے کا اظہار کرے گا۔ آپ نے فرمایا : یہ پانچویں ہوئی اور چھٹی علامت یہ ہو گی کہ تمہارے اور بنو الاصفر یعنی رومیوں کے درمیان صلح ہوگی،لیکن وہ (عہد توڑ کر) اسی جھنڈوں کے نیچے چل کر آئیں گے۔ میں نے کہا: غایہ سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد جھنڈا ہے، ہر جھندے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے، ان دنوں مسلمانوں کا مرکز دمشق میں غوطہ نامی مقام پر ہوگا۔
(مسند احمد 12840)

آج نیٹو فورسز کا قیام اسی جھنڈوں یعنی  ممالک کی اتحادی فوجیں اور وار اون ٹیرر کے نام پر ہونے والی کاروایاں اسی حدیث کے مصداق ہیں۔

 جمی ساروٹ کہتا ہے:۔میں چاہتا تھا کہ میں کہ سکوں کہ ہماری صلح ہونے والی ہے۔مگر میں آنے والے ہر مجدون کے معرکے پر ایمان رکھتا ہوں۔بے شک ہر مجدون آ کر رہے گا۔وادی مجیدو میں گھمسان کا رن پڑے گا اور وہ آ کر رہے گا۔صلح کے جس معاہدے پر وہ دستخط کرنا چاہتے ہیں کر لیں معاہدہ کبھی پورا نہیں ہوگا تاریک دن آنے والے ہیں۔
 اسی طرح پیسٹرکن باؤ جس کا تعلق میکلن چرچ سے ہے کہتے ہیں۔ دنیا کا خاتمہ قریب ہے اور اس حادثے کا وقوع ہماری زندگی ہی میں کسی وقت ہو سکتا ہے۔واضح تعین کر دیا ہے میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک نسل کے ختم ہونے سے پہلے یہ باتیں ہو جائیں گی۔
          اسی طرح  شجر غرقد ( Lycium،boxthorn) جسے بڑی تعداد میں اسرائیل اور کابل کی سرزمین پر کاشت کیا جا رہا ہے اس عقیدہ کے ساتھ کہ آخری جنگوں میں یہودیوں کے لیے پناہ کا کام دے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے چودہ صدیاں قبل ہی آگاہ فرما دیا تھا۔ چنانچہ

یہ بھی پڑہیے

حضرت لقمان کون تھے۔ قرآن نے ان کا زکر کیوں کیا؟؟؟





حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت قائم نہیں ہوگی ، یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں کے خلاف جنگ لڑیں گے اور مسلمان ان کو قتل کریں گے حتیٰ کہ یہودی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا اور پتھر یا درخت کہے گا : اے مسلمان!اے اللہ کے بندے!میرے پیچھے یہ ایک یہودی ہےآگے بڑھ ، اس کوقتل کردے ، سوائے غرقد کے درخت کے ( وہ نہیں کہے گا ) کیونکہ وہ یہود کا درخت ہے ۔
 (صحیح مسلم6761)

حتٰی کہ دجال کا مقامِ  مقتل  بھی بتا دیا چنانچہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: ”ابن مریم علیہما السلام دجال کو باب لد کے پاس قتل کریں گے“۔
(جامع ترمذی 2244)
موجودہ دور میں لُد اسرائیل کے دار الحکومت تل ابیب سے 15 کلومیٹر دور واقع شہر ہے۔ شہر کی موجودہ اہمیت یہاں موجود بین الاقوامی ہوائی اڈے کی وجہ سے ہے۔ یہ ہوائی اڈا برطانوی راج کے دوران فوجی پروازوں کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم 1948 ء میں اسرائیلی حکومت کے زیراستعمال آنے کے بعد سے یہ کمرشل، پرائیویٹ اور فوجی تینوں طرح کی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ٹرین، بس یا کار کسی بھی ذریعے سے اس ہوائی اڈے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس ایئرپورٹ کے چار ٹرمینل ہیں، جن میں سے تین استعمال میں ہیں جبکہ چوتھا ٹرمینل 1999ء میں تکمیل کے باوجود ابھی تک کھولا نہیں گیا ہے۔ اسرائیل-فلسطین تنازعے کے پیش نظر یہاں سیکیورٹی کا بہت زیادہ انتظام کیا گیا ہے اور یہ دنیا کے محفوظ ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔
          لُد شہر کی موجودہ صورت حال پر ایک نظر ڈالنے کے بعد 1400 سال پہلے بیان کی گئی حدیث میں متذکر بابِ لُد کی اہمیت کی وجہ واضح ہوتی ہے، یعنی یہاں موجود بین الاقوامی ہوائی اڈا۔ حدیث کی وضاحت کے تناظر میں ایک زاویہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لڑائی کے دوران دجال پسپا ہو کرکسی ہمدرد مغربی ملک کی طرف بھاگنے کی کوشش کرے اور اس کے لیے اسے ہوائی اڈے کا رخ کرے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام، جو زمین پر فتنہ دجال کا خاتمہ کرنے کے لیے اتارے گئے ہوں گے وہ اسے بھاگنے سے پہلے ہی پکڑ لیں گے اور قتل کر دیں گے۔ یوں دنیا سے دجال کا خاتمہ ہو جائے گا اور اسلام کا بول بالا ہوگا۔
          حاصل کلام یہ ہے کہ اس وقت پورا عالم یہود و نصرانی اس آنے والی جنگ کی تیاری میں مصروف ہے اور امت مسلمہ کو دہشت گردی اور دوسرے مسائل میں الجھا  کر رکھنے کی کوشش جاری رکھے ہوے ہے۔ اب وقت ہے کہ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہے نا کہ کسی اور کے ایجنڈا کو پروان چرھانا ہے۔

jews, greater israel, america, end of times,armageddon, israel, yaruslum