بدھ، 18 دسمبر، 2019

آدھا سچ اور متشدد رویے..... تحریر انجینئر عمران مسعود


آدھا سچ ہمیشہ خطرنا ک ہوتا ہے. لیکن یہی آدھا سچ بہت سے لوگوں کے مفاد کا ضامن بھی ہے . معاملہ چاہے سیاسی ,معاشرتی یا مذہبی اسی آدھے کو پیش کرکے اپنے مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔.

بحیثیت طالبعلم مذہبی اختلافات پہ تحقیق کا آغاز کیا تو ایک وقت کے بعد اتنا تذبذب کا شکار ہوا کہ کچھ سمجھ نہ آئے. یوں لگتا جیسے دونوں ہی سچ بول رہے ہیں لیکن دماغ کہتا تھا کہ آخر کوئی تو غلط ہوگا اور کوئی صحیح. جب فریقین کے دلائل کو پرکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں تو پورا سچ ہی مفقود ہے. کیونکہ اگر پورا سچ جانیں تو آدھے سچ سے ماخوذ نتائج کے منافی موقف سامنے آجاتا ہے. بہرحال اس معاملے میں بہت سے علماء ایسے بھی ہیں جو پورے سچ کے ساتھ مکمل تصویر پیش کرتے ہیں. اس آدھے سچ کے ذریعے فریق مخالف کو غلط ثابت کرنے کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں متشدد رویے جنم لیے اور ان رویوں کا خمیازہ پورا معاشرہ بھگت رہا ہے۔.

سیاسی معاملات میں بھی دیکھ لیں تو یہی صورتحال تظر آتی ہے. اپنے سیاسی مخالف کے منفی پہلو تو پیش کرتے لیکن مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرتے یا اس کی بھی اپنے موقف کے مطابق تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. یہی رویہ فریق مخالف کا بھی ہوتا ہے. نتیجہ معاشرے میں تصادم کی صورت میں نکلتا ہے۔.

گویا ایک ایسی ذہنیت تیار کی جاتی ہے جس کے مطابق آپ کا فریق مخالف ہمیشہ غلط ہو گا.

حالیہ دنوں ہونے والے دو واقعات اسی آدھے سچ کا نتیجہ ہیں. ایک پی آئی سی لاہور حملہ دوسرا اسسٹنٹ کمشنر اٹک کا معا ملہ. حالانکہ ایک ذی شعور آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ کسی بھی واقعہ کے محرکات ضرور ہوتے ہیں لہذا کسی فریق کو بری الذمہ قرار دینا نا انصافی ہے. میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاتا کیونکہ یہ موضوع نہیں ہے.

دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر اٹک کے معاملے میں دلی دکھ ہوا کہ ہم نے معاشرے کو کیا سوچ دی ہے... اگر بولنے والے نوجوان کے خلاف کاروائی ہوتی تو وہ مجاہد ملت قرار دیا جاتا اور بہت سے مفاد پرست طبقے خوب عوام کو استعمال کرتے جبکہ دوسری جانب ان محترمہ کی جو ہتک ہوئی اس کے نتیجے میں دوسرا طبقہ مذہبیت کو تنقید کو نشانہ بنا رہا ہے.

اسی طرح دہشت گردی کی وجہ سے اس ملک نے جتنا نقصان اٹھایا وہ بھی اس آدھے سچ کا پیش خیمہ ہے. نتیجتاً مذہبی اور لبرل طبقہ وجود میں آیا. یہ دو طبقات ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو سننا بھی گوارہ نہیں کرتے کیونکہ ایک ذہنیت وجود میں آچکی ہے کہ آپ کا فریق مخالف ہمیشہ غلط ہے. اس کی عقل پہ پردہ ہے. اور ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی دوڑ میں سیکولرازم کی سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے.اس سے بڑھ کر کہ سیکولرازم نے تو صرف مذہب کو عبادت تک محدود کیا لیکن الحاد نے تو مذہب کے وجود کا ہی انکار کر دیا. اور ان کے پاس دالائل میں وہی آدھے سچ ہیں جو ہمارے اکابر اور قائدین بیان کرتے ہیں.

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پورا سچ عوام کو بتانا ہو گا اس سے قطع نظر کہ آپ کے مخالف کو اس سے حمایت ملتی ہے یا نہیں. کیونکہ اکثر مسائل تو دونوں پہلو واضح کرنے سے حل ہو جاتے ہیں. آدھا سچ ہمیشہ دو مختلف نتائج دیتا ہے لیکن پورا سچ ایک ہی نتیجہ پہ لے آتا ہے. یہی دین اسلام کی بھی تعلیم ہے اور یہی معاشرے میں شدت پسندی کے خلاف بند باندھ کے امن کا ضامن ہے.


Assistant commissioner attock, blasphemy, attock