31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر آسیہ بی بی کے خلاف کیس خارج کرنے اور ان کی رہائی کا حکم دیا۔جس کے بعد ملکی حالات نے ایک نئی کروٹ لی۔قانونی ماہرین کے مطابق آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کی بنیاد چار وجوہات پر ہے:
o ایف آئی آر درج کرنے میں دیر ہوئی جس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں۔
o گواہان کے بیانات میں عدم مطابقت پائی گئی۔
o آسیہ بی بی نے اعترافِ جرم غیر عدالتی طور پر کیا جس کا عدالتی ثبوت کا عدم وجود
o عدالتوں کی جانب سے آسیہ بی بی پر لگائے جانے والے الزامات کی صحت اور ان کے ماحول کے تناظر کو نظر انداز کرنا۔
تاہم یاد رہے توہین مذہب کا الزام تو آسیہ پر لگا تھا تاہم ان کے خاندان کا بھی اِٹاں والی میں رہنا مشکل ہو گیا۔ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی طرف چلے گئے اور بالآخر برطانیہ میں انھیں پناہ مل گئی۔
آسیہ بی بی کے مقدمے نے ملک کی رائے عامہ کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی سے جیل جا کر ملاقات کی تھی، اور ان کے حق میں بات کی تھی، جس کی پاداش میں ان کے اپنے محافظ پولیس اہلکار ممتاز قادری نے چار جنوری 2011 میں اسلام آباد کی مصروف کوہسار مارکیٹ میں گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
اس وقت بھی بہت سے لوگ ممتاز قادری کو حق بجانب اور شہید قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے آسیہ بی بی کو قتل کرنے پر پانچ لاکھ روپے کا انعام بھی مقرر کیا گیا تھا۔
یہ کیس بین الاقوامی طور پر بھی زیرِ بحث آیا۔جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اُس وقت کے رومن کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ بینیڈکٹ نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ آسیہ بی بی کو رہا کرے، جبکہ موجودہ پوپ فرانسس نے آسیہ بی بی کے گھر والوں سے ملاقات کی تھی۔ اسی طرح24 فروری 2018 کو آسیہ بی بی کو سزائے موت دینے کے فیصلے کے خلاف اٹلی کے شہر روم میں سینکڑوں افراد کولوسیئم تھیئٹر کے سامنے جمع ہوئے۔ اس دوران اس قدیم عمارت کو سرخ رنگ میں رنگ دیا گیا تھا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ایشیا پیسیفک ڈائریکٹر ڈیوڈ گرفتھس نے ایک بیان میں کہا کہ 'یہ سنگین ناانصافی ہے۔ آسیہ بی بی پر شروع میں فردِ جرم ہی عائد نہیں کرنی چاہیے تھی، سزائے موت دینا تو دور کی بات ہے۔'اس کے علاوہ امریکہ محکمۂ خارجہ نے بھی کئی بار اس کیس کا ذکر کیا ہے۔ جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آسیہ کی رہائی میں عالمی طاقتیں کس قدر دلچسپی رکھتی ہیں اور عالمی میڈیا اس فیصلے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کیا فیصلہ آتا ہے۔
Asia bibi, saqib nisar,supreme courtm asia bibi case, khadim rizvi