بدھ، 24 اکتوبر، 2018

عمران خان نے ملک کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ سرمایہ کاری کانفرنس میں کیا ہوا۔


ایک بہت ہی معروف ٹی وی اینکر فرما رہے تھے ک عمران خان نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ سعودی عرب میں منعقدہ عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران پاکستان کے مسائل کو زیرِبحث لے کر آئے ۔ جہاں ایک عالمی فورم پر انہوں نے اس بات کو واضح طور تسلیم کیا کہ پاکستان میں کرپشن عروج پر ہے۔ سیاستدانو ں نے ملک کو لوٹا ہے۔ ملک کو اس وقت قرض کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس بھی شاید جائیں. یہ وہ باتیں ہیں جو ایک عالمی فورم پر شاید بیان نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ اس موقع پر پاکستان کے مثبت پہلو اجاگر کرنے چاہیے تھے. منفی پہلو بیان کرنے سے فائدہ کی بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہے. اس موقع پر سرمایہ کاروں کو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ترغیب دینا تھی۔
لیکن وزیراعظم پاکستان اس موقع پر سربراہ مملکت کی بجائے قائد حزب اختلاف کے روپ میں نظر آئےگویا موجودہ حکومت سے مایوس ہوں۔
ایک لمحے کے لیے تو موصوف کی ان باتوں میں وزن نظر آتا ہے لیکن زرا غور کریں تو یہ اعتراض باطل ہے۔ اس وقت عالمی میڈیا ہر بات سے باخبر ہے۔گزشتہ حکومتوں کے کرپشن اسکینڈلز کس سے پوشیدہ ہیں۔ اور اس بات سے سرمایہ کاروں سے زیادہ کون واقف ہو گا کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ کیا عوامل تھے۔ آج ان میگا کرپشن سکینڈلز کے سامنے آنے کے بعد جہاں عدالتوں پر اعتماد میں اضافہ ہوا وہاں سرمایہ کار بھی قوانین میں نرمی کے منتظر ہیں۔ وزیراعظم کا گزشتہ نقائص بیان کرنے کا مقصد ملک کی معیشت کا بھیانک رخ دکھانا نہیں تھا بلکہ ان عوامل کی نشاندہی کرنا تھا جو سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ تھے اور ساتھ میں اس عزم کا اظہار تھا کہ حکومت ان مسائل کا ادراک کر کے ان پر قابو پانے کے اقدامات کرے گی۔ یہ عزم گویا آنے والے دنوں میں سرمایہ کار برادری کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی۔ جس کے نتائج اگلے ہی روز برآمد ہونا شروع ہو گئے جب کہ ایس ای 100 انڈیکس نے 39000 پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کر لی۔ روپےکی قدر بھی استحکام کی جانب گامزن ہوئی۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں معیشت بھی استحکام کی جانب رواں دواں رہے گی۔
imran khan, pti, prime minister, saudi arab, investment conference 2018

ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

کتاس راج تالاب کی گہرائی لا محدود؟؟ جنرل الیگزینڈر کن نگھم کی تحقیق کے مطابق کتنی گہرائی ہے؟؟

کٹاس راج مندر ضلع چکوال کے قریب چو آ سیدن شاه شہر کے پاس موجود ہے۔کلر کہار سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہمیں وہ تاریخی ورثہ دیکھنے کو ملتا ہے جو ہندو بادشاہوں کے دور کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ کٹاس سطح سمندر سے 2200فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کا اصل نام ’کٹکشا‘ ہے اور سنسکرت میں اس کا مطلب ’آنسووں کی لڑی‘ ہے۔ ’مہابھارت‘ (سنسکرت مثنوی) میں اسے ’کائنات کا تالاب‘ کہا گیا ہے۔ کٹاس ہندووں کے سنہا سلطنت کا دارالحکومت بھی رہا۔کٹاس راج کو ہندووں کے خدا شیوا کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ جگہ آج بھی ہندووں کے لیے بہت مقدس ہے اور وہ اکثر اوقات یہاں نہ صرف پاکستان سے بلکہ دوسرے ممالک سے سفر کر کے آتے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ البیرونی نے بھی کچھ وقت کٹاس میں سنسکرت سیکھنے میں گزاری اور یہاں ’زبانوں کی یونیورسٹی‘ بھی موجود ہوا کرتی تھی۔ البیرونی کے یہاں ٹھہرنے کے ثبوت ہمیں ’کتاب الہند‘ میں ملتے ہیں۔ اس دوران البیرونی نے مختلف تجربات بھی کیے اور زمین کے رداس کو معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کٹاس دوسرے عقیدہ کے لوگوں کے لیے بھی مقدس ہے۔ ’پارس ناتھ جوگی‘ نے بھی اسی جگہ پر اپنی آخری سانسیں کاٹیں اور اس کی یادگار آج بھی کٹاس کے ساتھ موجود سرکاری سکول کے احاطے میں ہے۔ جگت گرو نانک نے بھی اس جگہ ’ویساکھ‘ کے دن قدم رکھا اور یہ جگہ’نانک نواس‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف صوفیوں اور جوگیوں کی بھی آماج گاہ رہی۔
کٹاس راج کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ”مہابھارت“ کے کردار پانڈوووں کے یہاں آنے کے بعد انہوں نے ست گڑھ کے مندر تعمیر کروائے۔ پانڈووں نے جلاوطنی کے ۲۱ سال یہاں گزارے۔ ست گڑھ اور سات مندروں کو وہ جگہ کہا گیا جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے بارہ سال گزارے۔
\
کٹاس کو ہندو خدا ’شیوا‘ کی پیدائش کی جگہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ برہمنوں کی کہانیوں سے ہمیں یہ جگہ ’شیوا‘ کے نام سے منسوب نظر آتی ہے اور شیوا اپنی بیوی ’ستی‘ کی موت کے غم میں اتنا رویا کہ آنسووں کی بارش کی صورت میں تالاب بن گیا جو کہ آج بھی کٹاس میں موجود ہے اور لوگ اسے ’مقدس تالاب ‘کہتے ہیں چونکہ یہ شیوا کے آنسووں سے بنا تھا۔ شیوا کی دائیں آنکھ سے نکلنے والا آنسو پشکار (راجستھان )میں گرا اور بڑا تالاب بن گیا اور بائیں آنکھ سے نکلنے والا آنسو کٹاس میں گر کر تالاب میں تبدیل ہو گیا۔
ہندوووں کی سب سے پرانی کتاب ’رگ وید‘ کٹاس میں لکھی گئی اور یہ اٹھارہ جلدوں پر مشتمل ہے جو دنیا کی بڑی نظموں میں سے ایک ہے جسے ’مہابھارت ‘ کہتے ہیں۔ یہ کتاب تقریباً 300 قبل مسیح میں لکھی گئی لیکن کچھ ہندو سکالرز کا ماننا ہے کہ یہ 1300 قبل مسیح لکھی گئی۔ اس کتاب میں کٹاس کے متعلق بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ’رگ وید‘ کی پہلی کتاب میں کہا گیا ہے کہ کٹاس کے تالاب کے نیچے ایک چھوٹا دریا بہتا تھا۔ جبکہ برطانوی آرکیالوجسٹ کا ماننا ہے کہ یہ تالاب قدرتی چشموں کی وجہ سے بنا۔ ’تذکرہ جہلم‘ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تالاب انسان کا بنایا ہوا ہے جو کہ پتھروں کو کاٹ کر بنایا گیا۔ اس کی لمبائی 122فٹ ہے اس کے ارد گرد 19فٹ کی لمبی اور مضبوط دیوار ہے۔ جنرل الیگزینڈر کن نگھم کے مطابق، جو کہ آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل (1872-73) تھے، اس تالاب کی گہرائی 23 فٹ ہے۔ جب کہ ہندووں کے مطابق  اس تالاب کی گہرائی لا محدود ہے۔ گرجاکھ کی تاریخ میں  ہے کہ اس تالاب کے نیچے پانی کی بہت سی ندیاں بہتی ہیں۔

یہاں پندرہ دن کا تہوار اماوس کے دنوں میں ہر سال منایا جاتا ہے اور ہندو برادری یہاں آ کر اپنے خدا شیوا کو نذرانہ پیش کرتی ہے یہ جگہ چونکہ ہندو برادری کے لیے برصغیر میں مقدس مانی جاتی ہے تو ہندو یاتری تہوار کے دنوں میں پوجا کرنے کے ساتھ مختلف ناچ اور بھجن گاتے ہیں جو ایک طرح سے شیوا کی شادی کو پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے علاوہ یاتری ’مقدس تالاب‘ میں نہا کر اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔
بدھ مت کے زوال کے بعد کٹاس میں ہندو شاہی دور عروج پر پہنچا۔ کٹاس راج اور بہت سارے دوسرے مندر اور قلعے تعمیر کیے گئے۔ ست گڑھ سے مشرق کی جانب تقریباً 40 میٹر کے فاصلے پر بدھ سٹوپا نظر آتا ہے۔ الیگزنڈر کن نگھم کے مطابق یہ سٹوپا 200 فٹ بلند ہے اور اس کے گرد پانی کے چشمے تھے موجودہ سٹوپا کی کھدائی سے زمین سے تقریباً دو میٹر نیچے پتھر کے تراشے ہوئے چوکور ٹکڑوں کا خوبصورت فرش ملا اور اس سٹوپہ کی بلندی 4 میٹر ہے جبکہ لمبائی اور چوڑائی 12x10 میٹر ہے۔ اس سٹوپا سے 16پتھر کی تہیں بھی ملی ہیں اور اس کے جنوب کی سمت پہاڑی پر بدھ مت کی خانقاہ کے آثار بھی ہیں۔
ست گڑھ کا لفظی مطلب ’سات گھر‘ ہے۔ کٹاس راج کے یہ مندر پہاڑی چوٹی پر واقع ہیں ان تک رسائی کے لیے طویل سیڑھیاں بنائی گئی ہیں جب کہ اکثر جگہ پر پرانی سیڑھیوں کے آثار بھی ہیں۔
اس مندر سے بہت سی دیو مالائیں وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر پانڈَوَ بھائیوں نے اپنی جلا وطنی کے 14 برسوں میں سے چار برس یہاں گزارے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ یہاں یڈھشٹر کے بھائیوں کو ایک یَکشَ (عِفریت) نے مار ڈالا تھا لیکن اس نے اپنی دانش کے بل پر اس نے یکش کو شکست دے کر اپنے بھائی زندہ کر لیے تھے۔ ایک اور کہانی یہ ہے کہ جب شیوجی مہاراج کی پتنی ستی (پاروتی دیوی) کو موت نے آ لیا تو وہ اتنا روئے کہ اس سے دو تالاب بن گئے، ایک اجمیر میں اور دوسرا کٹاکشا میں، جو اب کٹاس کہلاتا ہے۔ کٹاکشا کے معنی ہیں برستی آنکھیں۔ ایک اور روایت کے مطابق دوسرا تالاب اجمیر نہیں، نینی تال میں بنا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شیوجی کی پتنی نہیں بل کہ ان کا گھوڑا مرا تھا جس پر وہ  بے پناہ روئے۔
یہاں سے ہندو شاہیہ عہد (650-9500 عیسوی) کے دو مندروں کے آثار بھی ملے ہیں۔ ہندو اور دیگر غیر مسلم عقائد کے لوگوں کے لیے یہ ایک مقدس مقام ہے، ہندو عقیدے کے مطابق بعض مخصوص تہواروں پر اس کے تالاب میں غسل کرنے سے گناہ دھل جاتے ہیں، یہاں کے ہندوؤں نے تقسیم کے موقع پر نقل مکانی نہیں کی۔ تاحال یہ ہی سمجھا جاتا رہا کہ اس تالاب کی گہرائی پاتال تک ہے۔ اس مندر کے نواح میں ایک نا معقول اور بے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنائی گئی سیمنٹ فیکٹریوں کے باعث اس تالاب کا پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان اس مقام کو عالمی ورثے کے لیے نام زد کرانے پر غور کر رہی ہے، اللّٰہ جانے کب تک غور و خوض سے برآمد ہوگی۔
katas raj, chakwal, tamples, bestway cement, kallar kahar, choa saidan shah.

منگل، 16 اکتوبر، 2018

آئی ایم ایف کے پاس جانا کیوں ناگزیر ۔ وجہ سامنے آگئی۔

  آئی ایم ایف سے قرض لینا اگرچہ کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو آج کی تاریخ میں امریکہ جیسا ملک بھی قرضوں کے بار تلے دبا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض اگرچہ کثیر المدت معاشی نقصان کی وجہ بنتا ہے مگر یہ قرض لینا  اکثر اوقات ناگزیر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے فوائد وقتی طور پر حاصل ہو جاتے ہیں ورنہ ملکی معیشت مزید بحران کا شکار رہتی ہے ۔ گزشتہ حکومتوں کی جانب سے قرضوں کی ایک لمبی  فہرست ہے۔ اگرچہ پاکستان میں نئی حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ قرض نہیں لیں گے لیکن ان کو بھی بالآخر آئی ایم ایف کی چھتری تلاش کرنی پڑی۔ اگرچہ کوئی بھی اس عمل کی حمایت نہیں کرتا مگر اس وقت آئی ایم ایف کے پاس جانا کیوں ناگزیر ہے اس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے تو قرض کا حصول غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو مستحکم کرتا ہے  اور بین الاقوامی درآمدات کے اخراجات کو استحکام دیتا ہے۔اسی طرح تجارتی پابندیوں میں نرمی سے کوتجارتی برادری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو کہ معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے مواقع فراہم کرتا ہے۔ نجکاری کے عمل سے اداروں  میں وسائل کے  درست استعمال اور معاشی کارکردگی  میں بہتری آنے سے میکرو اکنامکس  بہتر ہوتی ہے جس کی وجہ سےحکومتی اخراجات میں کمی اور بجٹ خسارہ کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
IMF کے پروگراموں میں نئےٹیکس کا کلچر، حکومت کی غیر ضروری اخراجات کو کم کرکے ریونیو کو بڑھانا اور توانائی بحران جیسے مسائل پہ قابو پاکرانکم سپورٹ پروگرام کے اہداف کا تعین جیسے پروگرام شامل ہیں جن کا مقصد   ملکی خزانے کو بہتر بنانا ہوتا ہے تاکہ فلاحی سرگرمیوں کو پورا کیا جا سکے۔
فوری فوائد میں سرمائے کی فراہمی روپے کی ترسیل اور   ملک کے ڈیفالٹ خطرے کو کم کرکےکریڈٹ کی درجہ بندی میں بہتری ہوتی ہے۔جس سے غیر ملکی سرمایہ میں اجافہ ہوتا ہےجس کے نتیجہ میں روپے کی قدر مستحکم ہوتی ہے۔ کرنسی مستحکم ہونے کے نتیجہ میں سرمایہ داروں کا اعتماد  ملکی معیشت پر بہتر ہوتا ہے  جو کہ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کی نوید ہوتا ہے۔اس طرح ملکی آمدنی میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ بصورتِ دیگر  سرمایہ دار اپنا سرمایہ نکال لیتے ہیں جس کی وجہ سے روپے کی قدر گرنا شروع ہو جاتی ہے۔
            لیکن دوسری جانب ان قرضوں کے بھیانک نتائج بھی ہیں جیسے کہ پالیسی کی شرح  بشمول بینکوں کے اخراجات میں اضافہ اور سب سے بڑھ کر بے روزگاری میں اضافہ کیونکہ بہت سےبینک اور ادارے، فیکٹریاں اپنے اخراجات کوکم کرنے کے لئے  افرادی قوت کو کم کرنے لگ جاتے ہیں یا   چھوٹے مالکان اپنی فیکٹریاں ہی بند کر دیتے  ہیں  جس کے نتیجہ میں ان سے وابستہ  بہت سے افراد بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ اور یوں غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔
asad umar, imran khan, imf, loan, pakistan economy



اتوار، 14 اکتوبر، 2018

قائدِ اعظم کی حقیقی سالگرہ 25دسمبر نہیں بلکہ۔۔۔۔۔


بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح جن کا یومِ پیدائش قومی سطح پر ہر سال 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ لیکن بہت سے تاریخی حقائق  اس کے بر عکس ہیں ۔ جناح کی ایک دوست اور بائیوگرافر غلام علی الانا،نے اپنی کتاب Quaid-e-Azam Jinnah: a story of nation مین مختلف تاریخی حوالوں اس کے بارے میں لکھا ہے۔دراصل یہ کتاب  تو  انگریزی میں لکھی مگر یہ کتاب معروف شاعر رئیس امرووی نے اردو میں ترجمہ کی. دونوں ورژن فیروززسنز نے شائع کیے ہیں۔ اسی کتاب کےاردو ورژن کے صفحہ 19 پر، الانا نے کراچی میں سندھ مدرسہ الاسلام  میں داخلہ رجسٹریشن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جناح 4 جولائی، 1887 کو سکول میں داخل ہوئے۔ اس ریکارڈ میں ان کا  نام محمد علی جناح بھائی درج ہے اورگھر کا پتہ  کراچی۔ یہاں جناح  کی پیدائش کی تاریخ کا ذکر نہیں  ہے۔ دیگر اندراج مندرجہ ذیل ہیں: عمر: 14 سال۔فرقہ: خوجا۔ گزشتہ تعلیمی  قابلیت: درجہ چہارم گجراتی؛ فیس معاف یا ادائیگی کی جائے گی: ادا کی جائے گی۔ وغیرہ
سیریل نمبر 178 کے ساتھ دوسرا اندراج ہے کہ جناح 23 ستمبر، 1887 ء کو سندھ مدرسہ الاسلام میں داخل ہو ئے ۔یہاں ان کی پیدائش 20 اکتوبر، 1875 درج ہے، اور ان کی پچھلی قابلیت: درجہ اول انجمن اسلام بمبئی
9 فروری، 1891 کو ہونے والی تیسری انٹری نے ان کی تفصیلات کچھ یوں   ہے: نام: محمد علی جناح بھائی؛ جائےپیدائش : کراچی؛  پیدائش کی تاریخ: 20 اکتوبر، 1875؛ فرقہ: خوجہ؛ پچھلی اہلیت: درجہ چہارم ؛ فیس معاف یا ادائیگی کی: ادائیگی کی.
اسکول کے ریکارڈوں میں آخری دو اندراجات 25 دسمبر، 1876 جناح کی سرکاری سالگرہ ہونے کے بارے میں شکوک جنم دیتے ہیں. لیکن قائد ڈے کے انعقاد کے حوالے سے الانا کے دعویٰ کے مقابل سرکاری دعوی25 دسمبر کو تقویت  کے لئے بھی ثبوت موجود ہے.
مثال کے طور پر، سوراجنی نایڈو جو جناح کی سوانح حیات  لکھنے والی پہلی مصنف ہے، انھوں نے ایک اتحاد کا سفیر محمد علی جناح: ان کی تقریریں اور تحر یریں  1912-1917 ء اس ثبوت کے لیے کافی ہیں کہ 25 دسمبر واقعی جناح کی سالگرہ ہے. نائڈو نے جناح کے پاسپورٹ کا حوالہ دیا۔ لیکن یہاں بھی ایک قباحت ہے کیوں کہ پاسپورٹ پر تاریخ ِپیدائش 1875 لکھی ہے جبکہ عام طور پر ان کا سالِ پیدائش1876 بیان کیا جاتا ہے۔ لہٰذا  ایک ہی وقت میں اتنا بڑا اختلاف  نا قابلِ فہم ہے کہ ان کا حقیقی یومِ پیدائش کیا ہے لیکن یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جناح ہمیشہ اپنی  سالگرہ  25 دسمبر کو ہی مناتے تھے۔ لیکن ان کے کچھ دستیاب پاسپورٹ پر تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1875 ہی درج ہے۔

 لہٰذا اس سے یہ نتیجہ  اخذ کیا جا سکتا ہے ک بعد ازاں انہوں نے خود اپنا یومِ پیدائش تبدیل کروایا ہو۔
quaid e azam, jinnah, muhammad ali jinnah, pakistan, 25 december, quaid day,

منگل، 9 اکتوبر، 2018

حضرت لقمان کون تھے۔ قرآن نے ان کا زکر کیوں کیا؟؟؟


حضرت لقمان نبی تھے یا نہیں؟ اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمان نبی تھے یا نہ تھے؟ اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے ۔ حضرت جابر سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت لقمان پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے نبی تھے ۔ سعد بن مسیب فرماتے ہیں آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے ۔ آپ کو حکمت عطا ہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی آپ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے تئیں حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضور رسالت پناہ کے غلام تھے ۔ حضرت مجع جو جناب فاروق اعظم کے غلام تھے اور حضرت لقمان حکیم جو حبشہ کے نوبہ تھے ۔ حضرت خالد ربعی کا قول ہے کہ حضرت لقمان جو حبشی غلام بڑھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ ۔ وہ دل اور زبان لے گئے کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سبب سے بد تر بھی یہی ہیں ۔ 

اسکندر اعظم کے بارے میں قرآن میں کیا ذکر آیا. پڑہیے

حضرت مجاہد کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے نیک بندے تھے ۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے اور بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے ۔ ایک اور قول ہے کہ آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں تھے ۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چروا ہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جر میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایاکرتا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں اس نے کہا پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا ؟ فرمایا سچ بولنے اور بیکار کلام نہ کرنے سے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کا فضل اور امانت ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بےنفع کاموں کو چھوڑ دینا ۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے ۔ بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے ۔ انبیاء کرام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہوا کرتے تھے ۔ اسی لئے جمہور سلف کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے ۔ ہاں حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہوجائے لیکن اسکی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ کہتے ہیں کہ حضرت لقمان حکیم سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسحاس کا غلام نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں ۔ اس نے کہا تو بکریوں کا چرواہا نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں ۔ کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں؟ آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا یہی کہ پھر وہ کیا ہے ؟ کہ تیری مجلس پر رہتی ہے ؟ لوگ تیرے دروازے پر آتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں ۔ 

کالا باغ ڈیم پر صوبہ سندھ کے تحفظات اور ان کی حقیقت. پڑہیے

آپ نے فرمایا سنو بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کرلو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤگے ۔ آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو ۔ زبان بیہودہ باتوں سے روک لو ۔ مال حلال کھایاکرو ۔ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو ۔ زبان سے سچ بات بولا کرو ۔ وعدے کو پورا کیا کرو ۔ مہمان کی عزت کرو ۔ پڑوسی کا خیال رکھو ۔ بےفائدہ کاموں کو چھوڑ دو ۔ انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے ۔ ابو داؤد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے ۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں ۔ وہ خوش اخلاق خاموش غور و فکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے ۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغو کاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس دن ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے ۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لئے جاتے تھے کہ غور و فکر اور عبرت ونصیحت حاصل کریں ۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی ۔ حضرت قتادۃ سے ایک عجیب اثر وارد ہے کہ حضرت لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی راتوں رات ان پُر حکمت برسادی گئی اور رگ وپے میں حکمت بھر دی گئی ۔ صبح کو ان کی سب باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں ۔ آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنادیتا تو اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھاجاتا ۔ لیکن جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہار سکوں ۔ اس لئے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا ۔ اس روایت کے ایک راوی سعید بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے واللہ اعلم ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں حکمت سے مراد اسلام کی سمجھ ہے ۔ حضرت لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے ۔ ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم وعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے ۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر ۔ شکر گذار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپناہی بھلاکرتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُوْنَ 44؀ۙ ) 30- الروم:44 ) نیکی والے اپنے لئے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اسکی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بےپرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بےنیاز ہے ساری زمین والے بھی اگر کافر ہوجائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ہم اس کے سواکسی اور کی عبادت نہیں کرتے ۔

کوہاٹ میں مزدور کوئلے کی کان میں دب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔ دیکھیں کان کے اندر کا ماحول. کیسے جان ہتھیلی پہ رکھ کر کام کرتے ہیں یہ لوگ.. پڑہیے

لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی ۔ شعرائے جاہلیت ، مثلاً امراؤ القیس ، لَبِید ، اَعْشیٰ ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے ان کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا ۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اولین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا ۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا ۔ وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوت اسلام دیتے پھر رہے تھے ۔ اس سلسلہ میں سُوید نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے ۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا ۔ یہ بہت اچھا کلام ہے ، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے ۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے ( سیر ۃ ابن ہشام ، ج ۲ ، ص ٦۷ ۔ ٦۹ ۔ اُسُد الغابہ ، ج ۲ ، صفحہ ۳۷۸ ) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت ) مدینہ میں اپنی لیاقت ، بہادری ، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر کامل کے لقب سے پکارا جاتا تھا ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدت بعد جنگ بعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا ۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا ۔ تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں ۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی ۔

جب ایک مصری نے حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات پر اعتراض کیا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کیاا جواب دیا. پڑہیے

 معلومات کا انحصار ان سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں ۔ ان روایات کی رو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض القرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قوم عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہود علیہ السلام کے ساتھ بچ رہے تھے ، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی ، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا ۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا ۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ ، مُجاہِد ، عکْرِمَہ اور خالد الربعی کا ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا ۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا ۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں ۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے ، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے ۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری ، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے ، پھر روض الانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں ۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُوبی تھا ، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ ( موجودہ عَقَبہ ) کے علاقے کا تھا ۔ اسی وجہ سے اسکی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی ۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں ۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے ( روض الانف ، ج۱ ، ص۲٦٦ ۔ مسعودی ، ج۱ ۔ ص۵۷ ) ۔ یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ ( Derenbours ) نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو امثال لقمان الحکیم ( Fables De Loqman Le Sage ) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے ۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں ۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے اپنی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھہرا دیا جائے ۔ جو شخص بھی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں لقمان کے عنوان پر ہیلر ( B. Heller ) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا ۔
بحوالہ  1۔تفسیر ابن کثیر
       2۔تفسیر مودودی

hazrat luqman, luqman hakeem, luqman, quran, hakeem luqman


اتوار، 7 اکتوبر، 2018

اسکندر اعظم کے بارے میں قرآن میں کیا ذکر آیا.


زوالقرنین جن کا ذکر قرآن میں بادشاہ اور فاتح کے طور پر آیا ہے ان کے بارے عموماً یہ رائے دی جاتی ہے کہ اس سے مراد سکندر اعظم ہے مگر تاریخی حوالے اس سے مطابقت نہیں رکھتے.  چنانچہ مولانا مودودی اس کی تفصیل بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ذوالقرنین جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ، کون تھا ۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا ، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں ۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس ( خسرو یا سائرس ) کی طرف ہے ، اور یہ نسبۃً زیادہ قرین قیاس ہے ، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھیرایا جا سکتا ۔ قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں : 1 ) ۔ اس کا لقب ذو القرنین ( لغوی معنی دو سینگوں والا ) کم از کم یہودیوں میں ، جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا ، ضرور معروف ہونا چاہیے ۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ دو سینگوں والے کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے ۔ 2 ) ۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں ، اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں ۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی ۔ 3 ) ۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج و ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی درے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو ۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں ، اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے ۔ 4 ) ۔ اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو ، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے ۔ ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے ، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایل میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک منڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے ۔ یہودیوں میں اس دو سینگوں والے کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی ( تفہیم القرآن سورہ بنی اسرائیل ، حاشیہ 8 ) دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے ، مگر پوری طرح نہیں ۔ اس کی فتوحات بلا شبہ یہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں با ختر ( بلخ ) تک وسیع ہوئیں ، مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے ، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے ، تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے ، کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کا کیشیا ( قفقاز ) تک وسیع تھی ۔ تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی ، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں ۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے ۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خوس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے ۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جاسکتی ہے تو وہ خورس ہی ہے ۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا ۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ذو القرنین کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں ، لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین نہیہں قرار دیا جا سکتا. لیکن دوسری جانب کوئی اور فاتح اس کا مصداق بھی نہیں جتنا خورس ہے. بہرحال تاریخی حوالوں سے یاد رہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج 549ق م میں شروع ہوا. اس نے چند سالوں میں ہی میڈیا اور لیڈیا (ایشیائے کوچک ) کے علاقوں کو فتح کرکے 539ق.م میں بابل کا علاقہ بھی فتح کر لیا. پھر کوئی  بھی قوت اس کے سامنے ٹہر نہ پاتی تھی اس کی سلطنت کی حدود سندھ اور تکستان سے لیکر دوسری جانب مصر اور لیبیا تک تو دوسری جانب تھریس اور مقدونیہ تک وسیع تھیں. اور شمال میں اس کی سلطنت کا دائرہ کاکیشیا  اور خوارزم تک پھیلا ہوا تھا. گویا پوری مہذب دنیا اس کے تابع فرمان تھی

جمعرات، 4 اکتوبر، 2018

کالا باغ ڈیم پر صوبہ سندھ کے تحفظات اور ان کی حقیقت.


کالاباغ ڈیم حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک بڑا  منصوبہ تھا جو تاحال متنازع ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبہ کے لیے منتخب کیا گیا مقام کالا باغ تھا جو ضلع میانوالی میں واقع ہے۔ ضلع میانوالی صوبہ پنجاب کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ یاد رہے کہ ضلع میانوالی پہلے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ تھا جسے ایک تنازع کے بعد پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔
کالاباغ ڈیم کا منصوبہ اس کی تیاری کے مراحل سے ہی متنازع رہا ہے۔ دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے  اعلان کیا تھا کہ، “وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے“۔ جبکہ 26 مئی 2008ء کو اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک اخباری بیان میں کہا، “کالاباغ بند کبھی تعمیر نہ کیا جائے گا“ انھوں نے مزید کہا، “صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل نہیں رہا
صوبہ سندھ جس نے کالا باغ منصوبے کی سب سے پہلے مخالفت  کی اور تا حال اس کی مخالفت کر رہا ہے.  اس منصوبہ سے متاثر ہونے والا اہم فریق ہے۔ اگرچہ صوبہ سندھ اس منصوبہ کی کٹر مخالفت کرتا ہے لیکن اس کا نقطہ نظر “پنجاب  کے ہاتھوں پانی کی چوری“ کے نظریہ پر قائم ہے۔ اس نظریہ کی انتہائی حمایت صوبہ سندھ میں دیکھنے میں آتی ہے لیکن کسی بھی طرح سے اس چوری کو ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ صوبہ سندھ دراصل تاریخی لحاظ سے دریائے سندھ پر اپنا حق تسلیم کرتا ہے اور  عوامی رائے میں دریائے سندھ پر صوبے کا حق تاریخ اور اس کے نام سے عیاں ہے۔ تربیلہ بند اور منگلا بند کی تعمیر کو صوبہ سندھ دراصل پنجاب کے ہاتھوں پانی چوری کا نقطہ سمجھتے ہوئے اب کالا  باغ بند کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کرتا آیا ہے، جس کی قیمت سندھ کی زرعی زمین کی تباہی کی صورت میں ادا کرنی پڑی  ہے۔ اس کلیدی نقطہ کے علاوہ صوبہ سندھ اس منصوبہ کی مخالفت میں مندرجہ زیل نکات پیش کرتا ہے،

صوبہ سندھ کے مطابق کالا باغ بند میں ذخیرہ ہونے والا پانی صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد کی زرعی زمینوں کو سیراب کرے گا جبکہ یہی پانی سندھ کی زرعی زمینوں کو سیراب کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ عالمی قانون برائے تقسیم پانی کی رو سے دریائے سندھ پر صوبہ سندھ کا حق تسلیم کیا جانا چاہیے۔
صوبہ سندھ کے ساحلی علاقہ میں دریائے سندھ کا بہنا انتہائی  ضروری ہے تاکہ یہ دریا سمندری پانی کو ساحل کی طرف بڑھنے سے روک سکے۔ اگر دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوتی ہے تو یہ سندھ کے ساحل اور اس پر موجود جنگلات اور زرعی  زمینوں کو صحرا میں تبدیل کر دے گا۔ یہ نہ صرف ماحول کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ ماحولیاتی رو سے انتہائی نامناسب بھی ہے۔
تربیلہ بند اور منگلا بند کی تعمیر کے بعد صوبہ سندھ میں پانی کی کمی واقع ہوئی ہے جس کا ثبوت کوٹری بیراج اور حیدر آباد میں دریائے سندھ کی موجودہ حالت کا ماضی سے موازنہ کر کے لگایا جاسکتا ہے۔ صوبہ سندھ کو خدشہ ہے کہ دریائے سندھ پر ایک اور  بند کی تعمیر کے نتائج صوبے میں انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔
کالا باغ بند زلزلوں کے لحاظ سے انتہائی خطرناک جگہ پر واقع ہو گا جس کے قریب انتہائی خطرناک فالٹ لائنیں موجود ہیں اور یہیں زیر زمین دراڑیں ذخیرہ کیے گئے پانی کو سمو لیں گی اور بہتے ہوئے دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہو جائے گا جو کسی صورت میں بھی کسی فریق کے لیے سودمند نہیں ہے۔
دریائے سندھ پر تعمیر کیے جانے والے بند پہلے سے ہی کئی  ماحولیاتی مسائل کا سبب بن رہے ہیں، جن کو ابھی تک وفاقی و صوبائی سطح پر زیر بحث نہیں لایا گیا ہے۔ کالاباغ بند میں جمع ہونے والی ریت کا مسئلہ ماحولیاتی مسائل میں نہ صرف اضافہ کرے گا بلکہ یہ منچھر جھیل اور ہالیجی جھیل میں پانی کی عدم دستیابی کا بھی سبب بنے گا، جس سے آبی حیات کو انتہائی  خطرات درپیش ہوں گے۔
گو سابق صدر پرویز مشرف، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور  دوسرے قومی و صوبائی راہنماؤں نے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ صوبہ سندھ کو پانی میں پورا حصہ ملے گا مگر یہ یقین دہانیاں صوبہ سندھ کے لیے کافی نہیں ہیں۔ صوبہ سندھ یہ سمجھتا ہے کہ 1991ء میں ہونے والے دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے معاہدے  جس کی تصدیق آئینی کمیٹی نے کی تھی، اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا، یعنی صوبہ پنجاب دراصل دریائے سندھ کے پانی کی  چوری کا مرتکب ہوا ہے۔
کالا باغ بند بارے صوبہ سندھ میں عوامی رائے انتہائی ناہموار ہے۔ صوبہ سندھ کی قوم پرست سیاسی جماعتیں اور پارلیمانی سیاسی جماعتیں بشمول متحدہ قومی موومنٹ اور حکمران  جماعت متفقہ طور پر اس منصوبہ کی مخالفت کرتی ہیں۔ اُن جماعتوں کا وفاق سے مطالبہ ہے کہ اس صورت حال میں کالا باغ بند کی تعمیر بارے اپنی رائے پر نظر ثانی کرے کیونکہ یہ صوبہ سندھ میں نقض امن اور وفاق سے علیحدگی کا سبب بن سکتا ہے۔
Kalabagh,  dam,  pppp,  pti dam fund,