اتوار، 7 اکتوبر، 2018

اسکندر اعظم کے بارے میں قرآن میں کیا ذکر آیا.


زوالقرنین جن کا ذکر قرآن میں بادشاہ اور فاتح کے طور پر آیا ہے ان کے بارے عموماً یہ رائے دی جاتی ہے کہ اس سے مراد سکندر اعظم ہے مگر تاریخی حوالے اس سے مطابقت نہیں رکھتے.  چنانچہ مولانا مودودی اس کی تفصیل بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ذوالقرنین جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ، کون تھا ۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا ، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں ۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس ( خسرو یا سائرس ) کی طرف ہے ، اور یہ نسبۃً زیادہ قرین قیاس ہے ، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھیرایا جا سکتا ۔ قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں : 1 ) ۔ اس کا لقب ذو القرنین ( لغوی معنی دو سینگوں والا ) کم از کم یہودیوں میں ، جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا ، ضرور معروف ہونا چاہیے ۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ دو سینگوں والے کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے ۔ 2 ) ۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں ، اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں ۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی ۔ 3 ) ۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج و ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی درے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو ۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں ، اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے ۔ 4 ) ۔ اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو ، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے ۔ ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے ، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایل میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک منڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے ۔ یہودیوں میں اس دو سینگوں والے کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی ( تفہیم القرآن سورہ بنی اسرائیل ، حاشیہ 8 ) دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے ، مگر پوری طرح نہیں ۔ اس کی فتوحات بلا شبہ یہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں با ختر ( بلخ ) تک وسیع ہوئیں ، مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے ، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے ، تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے ، کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کا کیشیا ( قفقاز ) تک وسیع تھی ۔ تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی ، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں ۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے ۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خوس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے ۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جاسکتی ہے تو وہ خورس ہی ہے ۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا ۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ذو القرنین کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں ، لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین نہیہں قرار دیا جا سکتا. لیکن دوسری جانب کوئی اور فاتح اس کا مصداق بھی نہیں جتنا خورس ہے. بہرحال تاریخی حوالوں سے یاد رہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج 549ق م میں شروع ہوا. اس نے چند سالوں میں ہی میڈیا اور لیڈیا (ایشیائے کوچک ) کے علاقوں کو فتح کرکے 539ق.م میں بابل کا علاقہ بھی فتح کر لیا. پھر کوئی  بھی قوت اس کے سامنے ٹہر نہ پاتی تھی اس کی سلطنت کی حدود سندھ اور تکستان سے لیکر دوسری جانب مصر اور لیبیا تک تو دوسری جانب تھریس اور مقدونیہ تک وسیع تھیں. اور شمال میں اس کی سلطنت کا دائرہ کاکیشیا  اور خوارزم تک پھیلا ہوا تھا. گویا پوری مہذب دنیا اس کے تابع فرمان تھی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں