ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

کتاس راج تالاب کی گہرائی لا محدود؟؟ جنرل الیگزینڈر کن نگھم کی تحقیق کے مطابق کتنی گہرائی ہے؟؟

کٹاس راج مندر ضلع چکوال کے قریب چو آ سیدن شاه شہر کے پاس موجود ہے۔کلر کہار سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہمیں وہ تاریخی ورثہ دیکھنے کو ملتا ہے جو ہندو بادشاہوں کے دور کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ کٹاس سطح سمندر سے 2200فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کا اصل نام ’کٹکشا‘ ہے اور سنسکرت میں اس کا مطلب ’آنسووں کی لڑی‘ ہے۔ ’مہابھارت‘ (سنسکرت مثنوی) میں اسے ’کائنات کا تالاب‘ کہا گیا ہے۔ کٹاس ہندووں کے سنہا سلطنت کا دارالحکومت بھی رہا۔کٹاس راج کو ہندووں کے خدا شیوا کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ جگہ آج بھی ہندووں کے لیے بہت مقدس ہے اور وہ اکثر اوقات یہاں نہ صرف پاکستان سے بلکہ دوسرے ممالک سے سفر کر کے آتے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ البیرونی نے بھی کچھ وقت کٹاس میں سنسکرت سیکھنے میں گزاری اور یہاں ’زبانوں کی یونیورسٹی‘ بھی موجود ہوا کرتی تھی۔ البیرونی کے یہاں ٹھہرنے کے ثبوت ہمیں ’کتاب الہند‘ میں ملتے ہیں۔ اس دوران البیرونی نے مختلف تجربات بھی کیے اور زمین کے رداس کو معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کٹاس دوسرے عقیدہ کے لوگوں کے لیے بھی مقدس ہے۔ ’پارس ناتھ جوگی‘ نے بھی اسی جگہ پر اپنی آخری سانسیں کاٹیں اور اس کی یادگار آج بھی کٹاس کے ساتھ موجود سرکاری سکول کے احاطے میں ہے۔ جگت گرو نانک نے بھی اس جگہ ’ویساکھ‘ کے دن قدم رکھا اور یہ جگہ’نانک نواس‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف صوفیوں اور جوگیوں کی بھی آماج گاہ رہی۔
کٹاس راج کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ”مہابھارت“ کے کردار پانڈوووں کے یہاں آنے کے بعد انہوں نے ست گڑھ کے مندر تعمیر کروائے۔ پانڈووں نے جلاوطنی کے ۲۱ سال یہاں گزارے۔ ست گڑھ اور سات مندروں کو وہ جگہ کہا گیا جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے بارہ سال گزارے۔
\
کٹاس کو ہندو خدا ’شیوا‘ کی پیدائش کی جگہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ برہمنوں کی کہانیوں سے ہمیں یہ جگہ ’شیوا‘ کے نام سے منسوب نظر آتی ہے اور شیوا اپنی بیوی ’ستی‘ کی موت کے غم میں اتنا رویا کہ آنسووں کی بارش کی صورت میں تالاب بن گیا جو کہ آج بھی کٹاس میں موجود ہے اور لوگ اسے ’مقدس تالاب ‘کہتے ہیں چونکہ یہ شیوا کے آنسووں سے بنا تھا۔ شیوا کی دائیں آنکھ سے نکلنے والا آنسو پشکار (راجستھان )میں گرا اور بڑا تالاب بن گیا اور بائیں آنکھ سے نکلنے والا آنسو کٹاس میں گر کر تالاب میں تبدیل ہو گیا۔
ہندوووں کی سب سے پرانی کتاب ’رگ وید‘ کٹاس میں لکھی گئی اور یہ اٹھارہ جلدوں پر مشتمل ہے جو دنیا کی بڑی نظموں میں سے ایک ہے جسے ’مہابھارت ‘ کہتے ہیں۔ یہ کتاب تقریباً 300 قبل مسیح میں لکھی گئی لیکن کچھ ہندو سکالرز کا ماننا ہے کہ یہ 1300 قبل مسیح لکھی گئی۔ اس کتاب میں کٹاس کے متعلق بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ’رگ وید‘ کی پہلی کتاب میں کہا گیا ہے کہ کٹاس کے تالاب کے نیچے ایک چھوٹا دریا بہتا تھا۔ جبکہ برطانوی آرکیالوجسٹ کا ماننا ہے کہ یہ تالاب قدرتی چشموں کی وجہ سے بنا۔ ’تذکرہ جہلم‘ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تالاب انسان کا بنایا ہوا ہے جو کہ پتھروں کو کاٹ کر بنایا گیا۔ اس کی لمبائی 122فٹ ہے اس کے ارد گرد 19فٹ کی لمبی اور مضبوط دیوار ہے۔ جنرل الیگزینڈر کن نگھم کے مطابق، جو کہ آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل (1872-73) تھے، اس تالاب کی گہرائی 23 فٹ ہے۔ جب کہ ہندووں کے مطابق  اس تالاب کی گہرائی لا محدود ہے۔ گرجاکھ کی تاریخ میں  ہے کہ اس تالاب کے نیچے پانی کی بہت سی ندیاں بہتی ہیں۔

یہاں پندرہ دن کا تہوار اماوس کے دنوں میں ہر سال منایا جاتا ہے اور ہندو برادری یہاں آ کر اپنے خدا شیوا کو نذرانہ پیش کرتی ہے یہ جگہ چونکہ ہندو برادری کے لیے برصغیر میں مقدس مانی جاتی ہے تو ہندو یاتری تہوار کے دنوں میں پوجا کرنے کے ساتھ مختلف ناچ اور بھجن گاتے ہیں جو ایک طرح سے شیوا کی شادی کو پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے علاوہ یاتری ’مقدس تالاب‘ میں نہا کر اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔
بدھ مت کے زوال کے بعد کٹاس میں ہندو شاہی دور عروج پر پہنچا۔ کٹاس راج اور بہت سارے دوسرے مندر اور قلعے تعمیر کیے گئے۔ ست گڑھ سے مشرق کی جانب تقریباً 40 میٹر کے فاصلے پر بدھ سٹوپا نظر آتا ہے۔ الیگزنڈر کن نگھم کے مطابق یہ سٹوپا 200 فٹ بلند ہے اور اس کے گرد پانی کے چشمے تھے موجودہ سٹوپا کی کھدائی سے زمین سے تقریباً دو میٹر نیچے پتھر کے تراشے ہوئے چوکور ٹکڑوں کا خوبصورت فرش ملا اور اس سٹوپہ کی بلندی 4 میٹر ہے جبکہ لمبائی اور چوڑائی 12x10 میٹر ہے۔ اس سٹوپا سے 16پتھر کی تہیں بھی ملی ہیں اور اس کے جنوب کی سمت پہاڑی پر بدھ مت کی خانقاہ کے آثار بھی ہیں۔
ست گڑھ کا لفظی مطلب ’سات گھر‘ ہے۔ کٹاس راج کے یہ مندر پہاڑی چوٹی پر واقع ہیں ان تک رسائی کے لیے طویل سیڑھیاں بنائی گئی ہیں جب کہ اکثر جگہ پر پرانی سیڑھیوں کے آثار بھی ہیں۔
اس مندر سے بہت سی دیو مالائیں وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر پانڈَوَ بھائیوں نے اپنی جلا وطنی کے 14 برسوں میں سے چار برس یہاں گزارے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ یہاں یڈھشٹر کے بھائیوں کو ایک یَکشَ (عِفریت) نے مار ڈالا تھا لیکن اس نے اپنی دانش کے بل پر اس نے یکش کو شکست دے کر اپنے بھائی زندہ کر لیے تھے۔ ایک اور کہانی یہ ہے کہ جب شیوجی مہاراج کی پتنی ستی (پاروتی دیوی) کو موت نے آ لیا تو وہ اتنا روئے کہ اس سے دو تالاب بن گئے، ایک اجمیر میں اور دوسرا کٹاکشا میں، جو اب کٹاس کہلاتا ہے۔ کٹاکشا کے معنی ہیں برستی آنکھیں۔ ایک اور روایت کے مطابق دوسرا تالاب اجمیر نہیں، نینی تال میں بنا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شیوجی کی پتنی نہیں بل کہ ان کا گھوڑا مرا تھا جس پر وہ  بے پناہ روئے۔
یہاں سے ہندو شاہیہ عہد (650-9500 عیسوی) کے دو مندروں کے آثار بھی ملے ہیں۔ ہندو اور دیگر غیر مسلم عقائد کے لوگوں کے لیے یہ ایک مقدس مقام ہے، ہندو عقیدے کے مطابق بعض مخصوص تہواروں پر اس کے تالاب میں غسل کرنے سے گناہ دھل جاتے ہیں، یہاں کے ہندوؤں نے تقسیم کے موقع پر نقل مکانی نہیں کی۔ تاحال یہ ہی سمجھا جاتا رہا کہ اس تالاب کی گہرائی پاتال تک ہے۔ اس مندر کے نواح میں ایک نا معقول اور بے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنائی گئی سیمنٹ فیکٹریوں کے باعث اس تالاب کا پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان اس مقام کو عالمی ورثے کے لیے نام زد کرانے پر غور کر رہی ہے، اللّٰہ جانے کب تک غور و خوض سے برآمد ہوگی۔
katas raj, chakwal, tamples, bestway cement, kallar kahar, choa saidan shah.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں