جمعرات، 20 ستمبر، 2018

واقعہ کربلا کا حقیقی پس منظر از مولانا اسحاق مرحوم

Karbala, imam hussain,,, kafir, sunni, shis

موبائل فون استعمال کرنے کے آداب. سنئے قاسم علی شاہ سے

کوہاٹ میں مزدور کوئلے کی کان میں دب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔ دیکھیں کان کے اندر کا ماحول. کیسے جان ہتھیلی پہ رکھ کر کام کرتے ہیں یہ لوگ..


کچھ دن قبل کوہاٹ میں مزدور کوئلے کی کان میں دب کر جاں بحق ہوگئے تھے. ان کی ساری زندگی کان میں ہی گزر جاتی ہے. یہ رپورٹ ان کی زندگی پر بنائی گئی ہے. دیکھیں کان کے اندر کا ماحول. کیسے جان ہتھیلی پہ رکھ کر کام کرتے ہیں یہ
لوگ
coal mines,coal, labour,pakistan, poor, died, accident, kohat, kpk, government, poor

محرم الحرام کے مسنون اعمال

history, imam hussain, islam, islamic, karbala, khalifa, muharrm, yazeed, yazid, 

بدھ، 19 ستمبر، 2018

جب ایک مصری نے حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات پر اعتراض کیا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کیاا جواب دیا.

صحیح بخاری 3699 میں ہے
مصر والوں میں سے ایک نام نامعلوم آدمی آیا اور حج بیت اللہ کیا، پھر کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا کہ یہ قریشی ہیں۔ اس نے پوچھا کہ ان میں بزرگ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمر ہیں۔ اس نے پوچھا۔ اے ابن عمر! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ مجھے بتائیں گے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے احد کی لڑائی سے راہ فرار اختیار کی تھی؟

حضرت عمر رضی اللہ ؑنہ کی تاریخ شہادت میں اختلاف کی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔پڑہیے۔۔


ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے؟ جواب دیا کہ ہاں ایسا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہیں تھے۔ جواب دیا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ یہ سن کر اس کی زبان سے نکلا اللہ اکبر تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قریب آ جاؤ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا۔ احد کی لڑائی سے فرار کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہیں ( مریضہ کے پاس ٹھہرنے کا ) اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا اور بیعت رضوان میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر وادی مکہ میں کوئی بھی شخص ( مسلمانوں میں سے ) عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ عزت والا اور بااثر ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو ان کی جگہ وہاں بھیجتے، یہی وجہ ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( قریش سے باتیں کرنے کے لیے ) مکہ بھیج دیا تھا اور جب بیعت رضوان ہو رہی تھی تو عثمان رضی اللہ عنہ مکہ جا چکے تھے، اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ جا، ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا۔ ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو پہاڑ کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا احد ٹھہر جا میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں سے مارا بھی تھا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔

ہولو کاسٹ کیا ہے؟ حقیقت کیاہے اور کیا درپردہ سازش کارفرما ہے؟؟؟




history, islam, muharram, sahabi, usman ghani, uthnan

شہادتِ عمر رضی اللہ عنہ سے کربلا تک۔۔

قسط اول
واقعہ کربلا نہ صرف ایک سانحہ ہے بلکہ یہ آخری موقع تھا جب امت خلافتِ راشدہ کی برکات دوبارہ حاصل کر سکتی۔  مگر ایسا نہ ہو سکا۔ بلکہ نواسہ رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کو ظالمانہ طریقے سے شہید کر دیا گیا۔ یہ تاریخ اسلامیہ کا بلا شبہ ایک تاریک باب ہے جس کی کالک مٹانا نا ممکن ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی آواز اور اقدام یذید کے خلاف نہیں تھا بلکہ اس نظام اور سسٹم کے خلاف تھا جو یذید جیسے لوگوں کو بر سر اقتدار لے آتا ہے۔اگرچہ عام طور پر یزید کی ولی عہدی سے واقعہ کربلا کا آغاز کیا جاتا ہے مگر ہم اگر احادیثِ صحیحہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بتدریج نظام میں خرابی آئی۔ اسلام نے نظام شوریٰ دیا اور ملوکیت کی نفی کی۔ مگر بعد میں آہستہ آہستہ یہ نظام انحطاط کا شکارہوتا گیا۔ اس سے مراد ہر گز خلفا ءِراشدہ کی تنقیص نہیں بلکہ ان عوامل پر روشنی ڈالنا ہے جن کی وجہ سے امامِ حسین ؑ نے کلمہ حق بلند کیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں خود احادیث میں ہے کہ فرمایا عمررضی اللہ عنہ امت اور فتنوں کے درمیان ایک دروازہ ہے اور یہ دروازہ توڑ دیا جائے گا.اس ضمن میں ان کا آخری خطبہ بہت اہم ہے جس کے بعد ان کو شہید کر دیا گیا۔ جس میں  انہوں نے ان عوامل سے خبردار کیا جو نظام ِ خلافت کو توڑنا چاہتے تھے۔ مزیدفرمایا کہ اگر خلیفہ کا انتخاب امت کے مشورہ کے بغیر ہوا تو اس کا انجام خون ریزی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔یہاں ہم پوری حدیث نقل کرتے ہیں۔ چنانچہ
صحیح بخاری 6830:"حضرت عباس  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں کئی مہاجرین کو ( قرآن مجید ) پڑھایا کرتا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں ( سنہ 23 ھ ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گاکیونکہ واللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے ( مسجد نبوی ) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری اسے لے جا سکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ( اپنے زمانہ میں ) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھا کر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھا کر تعریفیں کی گئیں ( ان کو اللہ کو بیٹا بنا دیا گیا ) بلکہ ( میرے لیے صرف یہ کہو کہ ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری، انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ ( سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں ) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب ( سردار خزرج ) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا: امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار ( انصار ) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور اللہ کی قسم! وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزاوار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن مار دی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذر یوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں ( دونوں مل کر کام کریں ) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈر گیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی ( چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا ) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے ( انہوں نے بیعت نہیں کی ) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا: بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا ( پھوٹ پڑ جاتی ) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔"
گویا اس بات کا ادراک رکھتے تھے کہ اس کے بعد ان کو قتل کر دیا جائے گا. آخر کار اسی ماہ کے آخر میں ان کو شہید کر دیا گیا. ان کی شہادت اور بیعت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ وہ ہر تین سال بعد گورنر تبدیل کر دیا کرتے تھے۔
مگر اسلامی فتوحات کے بعد خلافت اسلامیہ کا دائرہ بڑھتا گیا۔ حضرت امیر معاویہ جو کے شام کے گورنر تھے وہ بدستور اپنے عہدے پہ قائم رہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ طبعاً نرم دل کے مالک تھے۔  اس لیے وہ کوئی بھی سخت قدم اٹھانے سے باز رہے۔  چنانچہ سنن ابی داؤد 4656
میں ہے" اقرع بیان کرتے ہیں کہ مجھے عمر نے ایک پادری کے پاس بلانے کے لیے بھیجا، میں اسے بلا لایا، تو عمر نے اس سے کہا: کیا تم کتاب میں مجھے ( میرا حال ) پاتے ہو؟ وہ بولا: ہاں، انہوں نے کہا: کیسا پاتے ہو؟ وہ بولا: میں آپ کو قرن پاتا ہوں، تو انہوں نے اس پر درہ اٹھایا اور کہا: قرن کیا ہے؟ وہ بولا: لوہے کی طرح مضبوط اور سخت امانت دار، انہوں نے کہا: جو میرے بعد آئے گا تم اسے کیسے پاتے ہو؟ وہ بولا: میں اسے نیک خلیفہ پاتا ہوں، سوائے اس کے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دے گا، عمر نے کہا: اللہ عثمان پر رحم کرے، ( تین مرتبہ ) پھر کہا: ان کے بعد والے کو تم کیسے پاتے ہو؟ وہ بولا: وہ تو لوہے کا میل ہے ( یعنی برابر تلوار سے کام رہنے کی وجہ سے ان کا بدن اور ہاتھ گویا دونوں ہی زنگ آلود ہو جائیں گے ) عمر نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا، اور فرمایا: اے گندے! بدبودار ( تو یہ کیا کہتا ہے ) اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! وہ ایک نیک خلیفہ ہو گا لیکن جب وہ خلیفہ بنایا جائے گا تو حال یہ ہو گا کہ تلوار بے نیام ہو گی، خون بہہ رہا ہو گا، ( یعنی اس کی خلافت فتنہ کے وقت ہو گی ) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «الدفر» کے معنی «نتن» یعنی بدبو کے ہیں۔"
حضرت عثمان بڑے نرم خو بڑے احسان کرنے والے اور بردبار تھے وہ اپنے گورنروں کا تبادلہ کر دیتےاور یوں لوگوں کو راضی رکھتے، جب مخالفت کی ہوا بند ہوتی تو پہلے گورنر کو اپنی جگہ بھیج دیتے ۔جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنو امیہ کا اثر رسوخ امور خلافت میں بڑھتا گیا۔ امیر شام ایک طویل دورِ حکومت کے بعد وہاں اپنی قدم مضبوط کر چکے تھے۔گویا نظام خلافت زوال پزیر ہونا شروع چکا تھا۔ جس کی ایک الگ تفصیل ہے جسے ہم کسی اور موقع پہ ذکر کریں گے۔ المختصر ہم یہاں ایک حدیث کا حوالہ دیں گے۔
"سنن ابی داؤد 2683:جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا سب کو امان دے دی، انہوں نے ان کا اور ابن ابی السرح کا نام لیا، رہا ابن ابی سرح تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو عثمان نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! عبداللہ سے بیعت لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی جانب دیکھا، تین بار ایسا ہی کیا، ہر بار آپ انکار کرتے رہے، تین بار کے بعد پھر اس سے بیعت لے لی، پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں کوئی بھی عقلمند آدمی نہیں تھا کہ جس وقت میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے روک رکھا تھا، اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ کے دل کا حال نہیں معلوم تھا، آپ نے ہمیں آنکھ سے اشارہ کیوں نہیں کر دیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کنکھیوں سے اشارے کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبداللہ عثمان کا رضاعی بھائی تھا اور ولید بن عقبہ عثمان کا اخیافی بھائی تھا، اس نے شراب پی تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر حد لگائی۔"
 ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے فتح  مکہ کے  موقع پر اسلام قبول کیا۔دور ِعثمانی میں ان کو کوفہ کا گورنر بنایا گیا  اور شراب پینے کے الزام میں  حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان پر حد جاری کی مگر اس واقعہ نے خلافت ِاسلامیہ کے بارے شکوک و شبہات جنم  دینا شروع کر دیاتھا۔
مسند احمد 6773میں ہے۔ :"حضین بن منذر سے روایت ہے کہ ولید بن عقبہ نے لوگوں کو نماز فجر پڑھائی، جب وہ فارغ ہوا تو وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: کیا میں تم کو مزید نماز پڑھاؤں؟ یہ معاملہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عدالت میں پیش کیا گیا، انھوںنے اس کو کوڑے مارنے کا حکم دیا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہااے حسن! کھڑے ہو جائو اور اس کو کوڑے مارو، انہوں نے کہا: آپ کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم عاجز آ گئے ہو اور کمزور پڑ گئے ہو، پھر انھوں نے کہا: اے عبد اللہ بن جعفر! کھڑے ہو جاؤ اور اس کو کوڑے لگاؤ، پس سیدنا عبد اللہ بن جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو کوڑے مارے اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے شمار کرنا شروع کر دیا۔ جب وہ چالیس تک پہنچ گئے تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رک جائو۔ پھر کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شراب پینے کی وجہ سے چالیس کوڑے لگائے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے پورے دور میں اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی خلافت کے شروع میں چالیس چالیس کوڑے لگائے، پھر سیدنا عمر نے شراب کی سزا اسی (۸۰) کوڑے پورے کر دیئے۔"
 دوسرا کردار مروان بن حکم تھاجس کا تعلق بنو امیہ کی دوسری شاخ بنی عاص سے تھا۔ حکم نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا۔ حضور (ﷺ) نے اس کو اور اس کے بیٹے مروان کو اس وجہ سے شہر بدر کر دیا تھا کہ وہ اپنی محفلوں میں ان کی نقلیں اتارتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اور مروان کو واپس بلا لیا تھا۔ حضرت عثمان نے حکم کے بیٹے مروان کو اپنا سیکرٹری مقرر کیاتھا۔ حضرت عثمان کو اس پر بے حد اعتماد تھا۔ اس لیے مہر خلافت بھی اس کے سپرد کر رکھی تھی۔ جب آپ کے خلاف فسادیوں نے شورش پیدا کی تو حاکم مصر کے نام منسوب خط وغیرہ کی جعلسازی کی ذمہ داری بھی اس پر عائد کی جاتی ہے۔ شہادت عثمان کے بعد مدینہ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور امیر معاویہ رضي الله عنه کے ساتھ جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کے خلاف لڑا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی اس کے ہاتھوں ہوئی جو اسی کی فوج کے سربراہ تھے۔ امیر معاویہ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اسے مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔یزید کی موت کے وقت یہ مدینہ ہی میں مقیم تھا۔ جبیر ابن مطعم سے روایت ہے کہ ہم لوگ پیغمبرِ اسلام کی خدمت میں حاضر تھے کہ ادھر سے حکم (مروان کا باپ) گزرا۔ اسے دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے صلب میں جو بچہ ہے اس سے میری امت عذاب اور پریشانی میں مبتلا ہوگی۔ حضرت عبد الرحمان بن عوف سے روایت ہے کہ جب مروان پیدا ہوا تو مدینہ کے اس وقت کے رواج کے مطابق اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ انہوں نے اسے دیکھ کر فرمایا یہ ملعون ابن ملعون ہے۔
اسی طرح ابن ابی سرح جن کو گورنرمصر لگایا تھا سنن ابی داؤد 4358 میں ہے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا، پھر شیطان نے اس کو بہکا لیا، اور وہ کافروں سے جا ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم دیا، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لیے امان مانگی تو آپ نے اسے امان دی۔جس کی تفصیل  سنن ابی داؤد2683 میں ملتی ہے۔ حضور ﷺنے اس کا ایمان کراہتا قبول فرمایا۔حضرت  عثمان  کی  سفارش اگرچہ نیک نیتی پر مبنی تھی مگربعد میں ان کی شہادت کی وجہ یہی شخص بنے ۔ یہاں تک نوبت آئی کہ اہل مصر وفد کی شکل میں ابن ابی سرح کی شکایت کرنے روانہ ہوئے۔ آپ نے انہیں معزول کر کے محمد بن ابی بکر کی تقرری کا پروانہ لکھ بھیجا، جس پر لوگ راضی ہوگئے۔
ابھی یہ لوگ راستے میں ہی تھے کہ انہیں سواری پر سوار ایک شخص نظر آیا انہوں نے اس سے خبر پوچھی، اس نے بتایا کہ وہ حضرت عثمان کے پا س سے آیا ہے اور اس کے پاس ابنی ابی سرح کی برقراری اور سربر آوردہ لوگوں کی سرزنش کا خط ہے، ان لوگوں نے خط لیا اور الٹے پیر واپس ہوگئے۔ آپ کے سامنے خط پیش کیا ، آپ نے قسم کھائی کہ نہ میں نے خط لکھا ہے اور نہ اجازت دی ہے، وہ کہنے لگے اپنا کاتب ہمارے حوالے کردیں آپ کو خدشہ تھا کہیں یہ لوگ اسے قتل نہ کردیں۔ آپ کا کاتب مران بن الحکم جو آپ کا چچازاد بھائی تھا۔ وہ لوگ برہم ہوگئے اور آپ کی حویلی کا محاصرہ کر لیا۔ لوگوں کی ایک جماعت آپ ۔کی حفاظت کرنے لگی آپ نے جنگ و قتال سے منع کردیا تھا صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ لوگ ایک گھر سے دوسرے گھر دیواریں پھلانگ کر آپ کے پاس پہنچ گئے اور آپ کو شہید کر دیا ، جس کا صحابہ کرام کو بہت صدمہ ہوا ۔ یوں فتنے کا درواز وا ہوا پھر جو ہونا تھا سو ہوا ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔


history, imam hussain, islam, islamic, karbala, khalifa, muharrm, yazeed, yazid, 


اتوار، 16 ستمبر، 2018

My calligraphy. اسلام کی خوبصورتی فضول کام ترک کرنے میں ہے


عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من حسن إسلام المرء: تركُه ما لا يعنيه)) حديث حسن؛ رواه الترمذي وغيره.

ہفتہ، 15 ستمبر، 2018

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد. مولانا محمد علی جوہر کی وہ غزل جس کا یہ شعر آج بھی تازہ ہے.

مولانا محمد علی جوہر
 مولانا محمد علی جوہر تحریک پاکستان کے بانیوں میں سے ہیں. اگرچہ ان کی وجہ شہرت ان کی سیاست اور اعلی قیادت و شخصیت ہے مگر بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ وہ ایک اعلیٰ ہائے کے شاعر بھی تھے. ان کی ایک غزل جس کا شعر آج بھی زندہ و جاوید ہے یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہے. 
دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدّعا کے بعد

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

لذّت ہنوز مائدہٴ عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنّا، سزا کے بعد

قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

جمعہ، 14 ستمبر، 2018

دو سو طیارے لیکر بھی پاکستانی فضائیہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے. بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا انکشاف


بھارتی فضائیہ مہارت میں پاکستان کی فضائیہ کا دے پیچھے ہے. ان خیالات کا اظہار بھارتی فضائیہ کےاییر چیف بریندر سنگھ نے حالیہ پریس کانفرنس میں کیا. ان کا کہنا تھا کہ بھارت دوسو طیارےلے کر بھی پاکستان اور چین کی فضائی مہارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا. 
ان خیالات کے اظہار کے بعد جہاں مودی سرکار کی دھمکیوں کا پول کھل گیا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستانی فضائیہ کا مورال بھی بلند ہوا ہے. 

کربلا کا واقعہ کیوں ہوا۔ حقیقی اسباب کیا تھے۔۔۔۔۔مولانا اسحق مرحوم

بدھ، 12 ستمبر، 2018

دنیا کی پہلی دہشت گردی۔۔۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کیوں شہید کیا گیا۔۔۔۔؟؟؟ کتنے صحابہ اس حملہ میں شہید ہوے؟؟؟ وقت شہادت ان پر کتنا قرضہ تھا؟؟

     

     حضرت  عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت بلا شبہ امت کے لیے کسی سانحہ سے کم نہیں تھی  کیونکہ ان کی شہادت  کے بعد امت پر فتنوں اور خلافت راشدہ کے زوال کا آغاز ہو گیا۔ خود احادیث میں بھی آتا ہے کہ ان کی ذات اور فتنوں کے درمیان ایک دروازہ ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری  1435
"حضرت حذیفہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے انہوں نے ہم سے دریافت کیا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آپ لوگوں میں کس کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں اس طرح یاد رکھتا ہوں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان فرمایا تھا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہیں اس کے بیان پر جرات ہے۔ اچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ میں نے کہا کہ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) انسان کی آزمائش ( فتنہ ) اس کے خاندان ‘ اولاد اور پڑوسیوں میں ہوتی ہے اور نماز ‘ صدقہ اور اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے منع کرنا اس فتنے کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ اعمش نے کہا ابووائل کبھی یوں کہتے تھے۔ نماز اور صدقہ اور اچھی باتوں کا حکم دینا بری بات سے روکنا ‘ یہ اس فتنے کو مٹا دینے والے نیک کام ہیں۔ پھر اس فتنے کے متعلق عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری مراد اس فتنہ سے نہیں۔ میں اس فتنے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا پھیلے گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ میں نے کہا کہ امیرالمؤمنین آپ اس فتنے کی فکر نہ کیجئے آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا صرف کھولا جائے گا۔ انہوں نے بتلایا نہیں بلکہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب دروازہ توڑ دیا جائے گا تو پھر کبھی بھی بند نہ ہو سکے گا ابووائل نے کہا کہ ہاں پھر ہم رعب کی وجہ سے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ نہ پوچھ سکے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ اس لیے ہم نے مسروق سے کہا کہ تم پوچھو۔ انہوں نے کہا کہ مسروق رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دروازہ سے مراد خود عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ہم نے پھر پوچھا تو کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ آپ کی مراد کون تھی؟ انہوں نے کہا ہاں جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو جانتے ہیں اور یہ اس لیے کہ میں نے جو حدیث بیان کی وہ غلط نہیں تھی۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کو اندازہ ہو چکا تھا کہ عنقریب ان کو قتل کر دیا جائے گا جس کا اظہار انہوں نے خطبہ جمعہ میں کیا کہ اسلام کی خاطر جن سے انہوں نے جنگ کی وہ ان کو قتل کر دینا چاہتے ہیں. اس کی تفصیل مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ یوں ملتی ہے۔۔
مسند احمد 12228"جو یریہ بن قدامہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جس سال سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس سال میں نے حج کیا اور پھر میںمدینہ منورہ آیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا ایک سرخ مرغ نے مجھے ایک دو ٹھونگیں ماری ہیں۔ ، پھر ہوا یوں کہ واقعی ان پر قاتلانہ حملہ ہو گیا، جب لوگوں کو ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت دی گئی تو سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب ان کے پاس گئے، ان کے بعد باقی اہل مدینہ، ان کے بعد اہل شام اور ان کے بعد اہل عراق، میں بھی ان لوگوں میں موجود تھا، جب لو گ ان کے پاس جاتے تو ان کی تعریف کرتے اور رونے لگ جاتے، جب ہم گئے تو ان کے پیٹ کو ایک سیاہ پگڑی کے ساتھ باندھا گیا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ ہم نے کہا: آپ ہمیں وصیت فرمائیں، ہمارے گروہ کے سوا کسی نے وصیت کرنے کی درخواست نہیں کی تھی، ہماری درخواست سن کر انہوں نے کہا: تم اللہ کی کتاب کو لازم پکڑو، تم جب تک اس کی پیروی کرتے رہوگے، اس وقت تک گمراہ نہیں ہوگے۔ ہم نے کہا: آپ ہمیں مزید وصیت کریں، انھوں نے کہا: میں تمہیں مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتاہوں، لوگوں کی تعداد بڑھ رہی اور مہاجرین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور میں تمہیں انصار کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہوں، یہ وہ گھاٹی ہیں، جس میں اسلام نے آکر پناہ لی،میں تمہیں بادیہ نشینوں کے متعلق بھی وصیت کرتاہوں، کیونکہ وہ مسلمانوں کی اصل او ربنیادی جوہر ہیں اور میں تمہیں ذمی لوگوں کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہوں،تمہارے نبی نے ان کو امان دی ہے اور یہ لوگ تمہارے اہل وعیال کی روزی کا ذریعہ بھی ہیں، اب تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے زیادہ ہم سے باتیں نہیں کیں۔ شعبہ کہتے ہیں:اس کے بعد ایک بار میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے بدوؤں کے بارے میں کہا: میں تمہیں بادیہ نشینوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، کیونکہ یہ تمہارے بھائی ہیں اورتمہارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔۔"
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ذوالحج کے آخری عشرہ میں دوران نماز فجر ابو لولوفیروز نے قاتلانہ حملہ میں زخمی کر دیا جس میں ان کی شہادت ہوئی.  اس کی تفصیل صحیح بخاری 3700 میں یوں ملتی ہے
 "عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں  میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زخمی ہونے سے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا کہ وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہما کے ساتھ کھڑے تھے اور ان سے یہ فرما رہے تھے کہ ( عراق کی اراضی کے لیے، جس کا انتظام خلافت کی جانب سے ان کے سپرد کیا گیا تھا ) تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟ کیا تم لوگوں کو یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تم نے زمین کا اتنا محصول لگا دیا ہے جس کی گنجائش نہ ہو۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان پر خراج کا اتنا ہی بار ڈالا ہے جسے ادا کرنے کی زمین میں طاقت ہے، اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دیکھو پھر سمجھ لو کہ تم نے ایسی جمع تو نہیں لگائی ہے جو زمین کی طاقت سے باہر ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دونوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونے پائے گا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا تو میں عراق کی بیوہ عورتوں کے لیے اتنا کر دوں گا کہ پھر میرے بعد کسی کی محتاج نہیں رہیں گی۔ راوی عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ ابھی اس گفتگو پر چوتھا دن ہی آیا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ زخمی کر دیئے گئے۔ عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ جس صبح کو آپ زخمی کئے گئے، میں ( فجر کی نماز کے انتظار میں ) صف کے اندر کھڑا تھا اور میرے اور ان کے درمیان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی نہیں تھا عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب صف سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفیں سیدھی کر لو اور جب دیکھتے کہ صفوں میں کوئی خلل نہیں رہ گیا ہے تب آگے ( مصلی پر ) بڑھتے اور تکبیر کہتے۔ آپ ( فجر کی نماز کی ) پہلی رکعت میں عموماً سورۃ یوسف یا سورۃ النحل یا اتنی ہی طویل کوئی سورت پڑھتے یہاں تک کہ لوگ جمع ہو جاتے۔ اس دن ابھی آپ نے تکبیر ہی کہی تھی کہ میں نے سنا، آپ فرما رہے ہیں کہ مجھے قتل کر دیا یا کتے نے کاٹ لیا۔ ابولولو نے آپ کو زخمی کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ بدبخت اپنا دو دھاری خنجر لیے دوڑنے لگا اور دائیں اور بائیں جدھر بھی پھرتا تو لوگوں کو زخمی کرتا جاتا۔ اس طرح اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کر دیا جن میں سات حضرات نے شہادت پائی۔ مسلمانوں میں سے ایک صاحب ( حطان نامی ) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے اس پر اپنی چادر ڈال دی۔ اس بدبخت کو جب یقین ہو گیا کہ اب پکڑ لیا جائے گا تو اس نے خود اپنا بھی گلا کاٹ لیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں آگے بڑھا دیا ( عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ ) جو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب تھے انہوں نے بھی وہ صورت حال دیکھی جو میں دیکھ رہا تھا لیکن جو لوگ مسجد کے کنارے پر تھے ( پیچھے کی صفوں میں ) تو انہیں کچھ معلوم نہیں ہو سکا، البتہ چونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی قرآت ( نماز میں ) انہوں نے نہیں سنی تو سبحان اللہ! سبحان اللہ! کہتے رہے۔ آخر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بہت ہلکی نماز پڑھائی۔ پھر جب لوگ نماز سے پلٹے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! دیکھو مجھے کس نے زخمی کیا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تھوڑی دیر گھوم پھر کر دیکھا اور آ کر فرمایا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کے غلام ( ابولولو ) نے آپ کو زخمی کیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا، وہی جو کاریگر ہے؟ جواب دیا کہ جی ہاں، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ اسے برباد کرے میں نے تو اسے اچھی بات کہی تھی ( جس کا اس نے یہ بدلا دیا ) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں مقدر کی جو اسلام کا مدعی ہو۔ تم اور تمہارے والد ( عباس رضی اللہ عنہ ) اس کے بہت ہی خواہشمند تھے کہ عجمی غلام مدینہ میں زیادہ سے زیادہ لائے جائیں۔ یوں بھی ان کے پاس غلام بہت تھے، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا، اگر آپ فرمائیں تو ہم بھی کر گزریں۔ مقصد یہ تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم ( مدینہ میں مقیم عجمی غلاموں کو ) قتل کر ڈالیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ انتہائی غلط فکر ہے، خصوصاً جب کہ تمہاری زبان میں وہ گفتگو کرتے ہیں، تمہارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں اور تمہاری طرح حج کرتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر اٹھا کر لایا گیا اور ہم آپ کے ساتھ ساتھ آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگوں پر کبھی اس سے پہلے اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں تھی، بعض تو یہ کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ ( اچھے ہو جائیں گے ) اور بعض کہتے تھے کہ آپ کی زندگی خطرہ میں ہے۔ اس کے بعد کھجور کا پانی لایا گیا۔ اسے آپ نے پیا تو وہ آپ کے پیٹ سے باہر نکل آیا۔ پھر دودھ لایا گیا اسے بھی جوں ہی آپ نے پیا زخم کے راستے وہ بھی باہر نکل آیا۔ اب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ آپ کی شہادت یقینی ہے۔ پھر ہم اندر آ گئے اور لوگ آپ کی تعریف بیان کرنے لگے، اتنے میں ایک نوجوان اندر آیا اور کہنے لگایا امیرالمؤمنین! آپ کو خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی۔ ابتداء میں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا جو آپ کو معلوم ہے۔ پھر آپ خلیفہ بنائے گئے اور آپ نے پورے انصاف سے حکومت کی، پھر شہادت پائی، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس پر بھی خوش تھا کہ ان باتوں کی وجہ سے برابر پر میرا معاملہ ختم ہو جاتا، نہ ثواب ہوتا اور نہ عذاب۔ جب وہ نوجوان جانے لگا تو اس کا تہبند ( ازار ) لٹک رہا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس واپس بلا لاؤ ( جب وہ آئے تو ) آپ نے فرمایا: میرے بھتیجے! یہ اپنا کپڑا اوپر اٹھائے رکھو کہ اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دنوں چلے گا اور تمہارے رب سے تقویٰ کا بھی باعث ہے۔ اے عبداللہ بن عمر! دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے؟ جب لوگوں نے آپ پر قرض کا شمار کیا تو تقریباً چھیاسی ( 86 ) ہزار نکلا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ قرض آل عمر کے مال سے ادا ہو سکے تو انہی کے مال سے اس کو ادا کرنا ورنہ پھر بنی عدی بن کعب سے کہنا، اگر ان کے مال کے بعد بھی ادائیگی نہ ہو سکے تو قریش سے کہنا، ان کے سوا کسی سے امداد نہ طلب کرنا اور میری طرف سے اس قرض کو ادا کر دینا۔ اچھا اب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ عمر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے۔ امیرالمؤمنین ( میرے نام کے ساتھ ) نہ کہنا، کیونکہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہا ہوں، تو ان سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب نے آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر ) سلام کیا اور اجازت لے کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ آپ بیٹھی رو رہی ہیں۔ پھر کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اس جگہ کو اپنے لیے منتخب کر رکھا تھا لیکن آج میں انہیں اپنے پر ترجیح دوں گی، پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ آ گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اٹھاؤ۔ ایک صاحب نے سہارا دے کر آپ کو اٹھایا۔ آپ نے دریافت کیا کیا خبر لائے؟ کہا کہ جو آپ کی تمنا تھی اے امیرالمؤمنین! عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا الحمدللہ۔ اس سے اہم چیز اب میرے لیے کوئی نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن جب میری وفات ہو چکے اور مجھے اٹھا کر ( دفن کے لیے ) لے چلو تو پھر میرا سلام ان سے کہنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ) نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر وہ میرے لیے اجازت دے دیں تب تو وہاں دفن کرنا اور اگر اجازت نہ دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔ اس کے بعد ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا آئیں۔ ان کے ساتھ کچھ دوسری خواتین بھی تھیں، جب ہم نے انہیں دیکھا تو ہم اٹھ گئے۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب آئیں اور وہاں تھوڑی دیر تک آنسو بہاتی رہیں۔ پھر جب مردوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو وہ مکان کے اندرونی حصہ میں چلی گئیں اور ہم نے ان کے رونے کی آواز سنی پھر لوگوں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! خلافت کے لیے کوئی وصیت کر دیجئیے، فرمایا کہ خلافت کا میں ان حضرات سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک جن سے راضی اور خوش تھے پھر آپ نے علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف کا نام لیا اور یہ بھی فرمایا کہ عبداللہ بن عمر کو بھی صرف مشورہ کی حد تک شریک رکھنا لیکن خلافت سے انہیں کوئی سروکار نہیں رہے گا۔ جیسے آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی تسکین کے لیے یہ فرمایا ہو۔ پھر اگر خلافت سعد کو مل جائے تو وہ اس کے اہل ہیں اور اگر وہ نہ ہو سکیں تو جو شخص بھی خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ خلافت میں ان کا تعاون حاصل کرتا رہے۔ کیونکہ میں نے ان کو ( کوفہ کی گورنری سے ) نااہلی یا کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا ہے اور عمر نے فرمایا: میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کے احترام کو ملحوظ رکھے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے ساتھ بہتر معاملہ کرے جو دارالہجرت اور دارالایمان ( مدینہ منورہ ) میں ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے سے ) مقیم ہیں۔ ( خلیفہ کو چاہیے ) کہ وہ ان کے نیکوں کو نوازے اور ان کے بروں کو معاف کر دیا کرے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ شہری آبادی کے ساتھ بھی اچھا معاملہ رکھے کہ یہ لوگ اسلام کی مدد، مال جمع کرنے کا ذریعہ اور ( اسلام کے ) دشمنوں کے لیے ایک مصیبت ہیں اور یہ کہ ان سے وہی وصول کیا جائے جو ان کے پاس فاضل ہو اور ان کی خوشی سے لیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو بدویوں کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ اصل عرب ہیں اور اسلام کی جڑ ہیں اور یہ کہ ان سے ان کا بچا کھچا مال وصول کیا جائے اور انہیں کے محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول کے عہد کی نگہداشت کی ( جو اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں سے کیا ہے ) وصیت کرتا ہوں کہ ان سے کئے گئے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی حیثیت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے، جب عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو ہم وہاں سے ان کو لے کر ( عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے حجرہ کی طرف آئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سلام کیا اور عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ہے۔ ام المؤمنین نے کہا انہیں یہیں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ وہیں دفن ہوئے، پھر جب لوگ دفن سے فارغ ہو چکے تو وہ جماعت ( جن کے نام عمر رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے بتائے تھے ) جمع ہوئی عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: تمہیں اپنا معاملہ اپنے ہی میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دینا چاہیے اس پر زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنا معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کرتا ہوں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمٰن بن عوف کے سپرد کیا۔ اس کے بعد عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ( عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے ) کہا کہ آپ دونوں حضرات میں سے جو بھی خلافت سے اپنی برات ظاہر کرے ہم اسی کو خلافت دیں گے اور اللہ اس کا نگراں و نگہبان ہو گا اور اسلام کے حقوق کی ذمہ داری اس پر لازم ہو گی۔ ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون افضل ہے، اس پر یہ دونوں حضرات خاموش ہو گئے تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ حضرات اس انتخاب کی ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہیں، اللہ کی قسم کہ میں آپ حضرات میں سے اسی کو منتخب کروں گا جو سب میں افضل ہو گا۔ ان دونوں حضرات نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپ نے ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ آپ کی قرابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور ابتداء میں اسلام لانے کا شرف بھی۔ جیسا کہ آپ کو خود ہی معلوم ہے، پس اللہ آپ کا نگران ہے کہ اگر میں آپ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ عدل و انصاف سے کام لیں گے اور اگر عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ ان کے احکام سنیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے؟ اس کے بعد دوسرے صاحب کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی یہی کہا اور جب ان سے وعدہ لے لیا تو فرمایا: اے عثمان! اپنا ہاتھ بڑھایئے۔ چنانچہ انہوں نے ان سے بیعت کی اور علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے بیعت کی، پھر اہل مدینہ آئے اور سب نے بیعت کی۔"

حضرت عمر رضی اللہ ؑنہ کی تاریخ شہادت میں اختلاف کی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔

     

    حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (ابو حفص عمر بن الخطاب العدوي القریشي) لقب فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان - وفات: 7 نومبر، 644ء مدینہ میں)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد ہیں۔حضرت عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ آپ ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
        آپ کی   یوم شہادت کے بارے میں بہت سی متنازعہ روایات مشہور ہیں۔ عموما یکم محرم الحرام  ان کا یوم شہہادت  کے طور پر منایا جاتا ہے۔تاریخ کی کتب کسی ایک موقف پر متفق نہیں ۔ ہم یہاں کچھ روایات کا زکر کرتے ہیں۔
        تاریخ ِاسلام  کے مطابق چہار شنبہ 27 ذی الحجہ 23ھ کو آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تھے۔ اور یکم محرم سنہ 24ھ کو ہفتہ کے دن فوت ہوکر مدفون ہوئے۔ (تاریخ اسلام، جلداول۔ص440) اور یہی بات البدایۃ والنہایۃ جلدہفتم ص176 پر بھی موجود ہے۔
        حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :أميرالمؤمنين مشهور جم المناقب استشهد في ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين
وولي الخلافة عشر سنين ونصفا تقریب التہذیب
حضرت عمر کے ذوالحج میں فوت ہونے یہ واضح موقف ابن حجر نے اپنایا ہے ، اور ابن اثیر رحمہ اللہ نے تو صراحت کے ساتھ لکھا ہے :طعن عمر يوم الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين وكانت خلافته عشر سنين وخمسة أشهر وأحدا وعشرين يوما وقال عثمان بن محمد الأخنسي هذا وهم
توفي عمر لأربع ليال بقين من ذي الحجة وبويع عثمان يوم الاثنين لليلة بقيت من ذي الحجة
حضرت عمر محرم سے چار دم پہلے فوت ہو گئے تھے اورحضرت عثمان کی سوموار کو ہوئی جب ذوالحج کی ایک رات باقی تھی(اسد الغابۃ:3ج،545)
مشہور مورخ ابن خلدون نے لکھا ہے :
ولم يزل يذكر الله إلى أن توفى ليلة الاربعاء لثلاث بقين من ذى الحجة سنة ثلاث وعشرين
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی وفات 23 ذواالحج کو ہوئی۔
اور سیدنا امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت و فضائل پر نویں صدی ہجری ۔۔یعنی آج سے پانچ سو سال قبل لکھی گئی جامع ،مفصل کتاب(( محض الصواب في فضائل أمير المؤمنين عمر بن الخطاب )) میں ذہبی رحمہ اللہ کے اسی قول کو سر فہرست نقل کیا ہے :
’’ قال الذهبي: "استشهد يوم الأربعاء لأربع أو ثلاث بقين من ذي الحجة، سنة ثلاث وعشرين من الهجرة، وهو ابن ثلاث وستين سنة على الصحيح ‘‘
آپ بدھ کے روز  زوالحج کے آخری تین یا  چار دن  قبل  ہجرت کے 23ویں      سال شہید ہوۓ۔اس وقت آپ کی عمر تریسٹھ سال تھی۔
علاوہ ازیں درج ذیل کتب کے مطابق٢٦ذوالحج ٢٣ہجری کو آپ کی شہادت ہوءی۔
طبقات ابن سعد جلد ٣صفحہ ١٤٧
تاریخ طبری جلد ٣صفحہ ٦٣٥
تاریخ ابن خلدون جلد ١صفحہ ٣٨٤
تاریخ الماسودی جلد ٦صفحہ ٦٤٠
تاریخ ابن کثیر جلد ٧صفحہ  ٦٧٩
دوسری جانب یکم محرم  کو درست ماننے والے یان روایات کا  رد  یوں کرتے ہیں طبقات ابن سعد (ج 3 ص 123 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) میں  اول تو امام ابن سعد نے اس معاملے میں از خود کوئی واضح تاریخ معین نہیں فرمائی۔ دوسرا کہ انہوں نے اس باب کا عنوان ہی 

ہولو کاسٹ کیا ہے؟ حقیقت کیاہے اور کیا درپردہ سازش کارفرما ہے؟؟؟

یہ بنایا ہے کہ حضرت عمر کی مدت خلافت اور حضرت عمر کی عمر کے متعلق مختلف اقوال۔ پھر ان میں پہلے ترجمۃ الباب کی روایت کمزور ہے۔ ابوبکر بن محمد بن سعد نامی راوی کا تذکرہ کیا تو اس میں اختلاف نہیں کہ وہ مہجول الحال ہے۔ اس طرح سے 26 ذی الحجہ والی روایت نہایت کمزور ہے
امام طبری نے بھی ابن سعد کی طرح ان کی تاریخ وفات کے اختلاف کا تذکرہ کیا ہے۔ چنانچہ پہلا قول تو 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے اور یہ روایت بھی نہایت کمزور ہے کیونکہ اس کے دو راوی سلیمان بن عبد العزیز اور جعفر بن عبد الرحمن تو مجہول الحال ہیں اور ایک راوی عبد العزیز بن عمران متروک ہے۔ دوسرا قول عبد العزیز بن عمران کا ہی ہے جو کہ بغیر کسی جرح کے 1 محرم کا بتایا ہے۔ تیسرا قول وہی ابن سعد کا ہی ذکر کیا ہے کہ 26 ذی الحجہ کو ہوئی لیکن جیسا پہلے واضح ہو چکا کہ وہ روایت انتہائی کمزور ہے۔ چوتھا قول ابو معشر کا 26 ذی الحجہ کا ہے جو احمد بن ثابت الرازی کے طریق سے ہے جو کہ کذاب تھا۔ پانچواں قول ہشام بن محمد کا 27 ذی الحجہ کا ہے جو کہ بلا سند اور منقطع ہے جو نہایت ہی کمزور ہے
تاریخ ابن خلدون میں ابن خلدون نے اگرچہ 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے مگر بلا سند ہے اور اس کا مضمون تقریبا وہی ہے جو تاریخ طبری کا پہلا 

وحشی نے حضرت حمزہ کے قتل کا بدلہ کیسے چکایا؟؟؟

قول ہے جس کی سند نہایت کمزور ہے۔ اگرچہ یہ بھی نہایت ہی کمزور قول ہے ۔
چوتھا حوالہ تاریخ مسعودی کا ہے۔ علی بن حسین المسعودی شیعہ رافضی ہے جس کا قول ہمارے لئے حجت نہیں۔
تاریخ ابن کثیر مٰیں حافظ ابن کثیر نے کئی اقوال نقل کر کے پہلے قول ہی کو ترجیح دی ہے جو کہ 1 محرم الحرام کا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ کم و بیش تقریبا ہر مورخ نے ہی ان پر ابو لولو فیروز کے حملہ کرنے سے شہادت کے دن تک کا درمیانی حصہ تین یا چار دن ذکر کیا ہے۔ ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ حضرت عمر پر حملہ 26 یا 27 ذی الحجہ کو ہوا اور ان کی شہادت اس واقعہ کے تیسرے یا چوتھے دن بعد 1 محرم الحرام کو ہوئی اور حجرہ عائشہ میں اسی روز دفن ہوئے۔ اس بارے میں حافظ ابن کثیر کی صراحت و اضح ہے۔ واللہ سبحان وتعالی اعلم

منگل، 11 ستمبر، 2018

بیگم کلثوم نواز انتقال کر گئیں.... ن لیگ کی سیاست میں ان کا کیا کردار تھا...



سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ اور تین مرتبہ پاکستان کی خاتون اول رہنے والے کلثوم نواز 1950 کو پیدا ہوئیں، ان کا تعلق کشمیری گھرانے سے تھا اور گاما پہلوان کی پوتی تھیں۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ البنات سے حاصل کی اس کے بعد لیڈی گریفن اسکول سے میٹرک کیا، ایف ایس سی اسلامیہ کالج جب کہ بی ایس سی ایف سی کالج لاہور سے کی۔

آپ نے ایم اے پنجاب یو نیورسٹی سے کیا اور اسی دوران سابق وزیراعظم نواز شریف سے ان کی منگنی ہوگئی۔

بیگم کلثوم نواز کے بھائی عبدالطیف کی شادی بھی شریف خاندان میں ہوئی اور یہی رشتہ داری اپریل 1971 میں نواز شریف سے ان کی شادی کا سبب بنی۔

کلثوم نواز کو عملی سیاست سے دلچسپی نہیں تھی اور وہ خاتون خانہ ہونے کو ترجیح دیتی رہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے بعد جب نواز شریف کو جیل جانا پڑا، تو ان کی رہائی کی مہم چلانے کے لئے کلثوم نواز سیاسی میدان میں سرگرم ہوئیں۔

22 جون 2000 میں انہیں مسلم لیگ ن کی قائم مقام صدر بنا دیا گیا اور وہ دو سال تک پارٹی کی صدارت کرتی رہیں۔

نواز شریف کی گرفتاری کے خلاف انہوں نے کاروان تحفظ پاکستان ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا، جس کی بناء پر انہیں 8 جولائی 2000 کو نظر بند کر دیا گیا۔ 

مگر بیگم کلثوم نواز چند لیگی کارکنوں کے ہمراہ جیل روڈ انڈر پاس پہنچ گئیں جہاں سے پولیس ان کی گاڑی کو کرین کے ذریعے جی او آر لے گئی اور وہاں انہیں گرفتار کیا گیا۔

مسلم لیگ نے نواز شریف کی نااہلی کے بعد بیگم کلثوم نواز کو ان کی خالی نشست این اے 120 سے ضمنی انتخاب لڑانے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن انتخابات سے قبل ہی جون 2017 میں بیماری کے باعث لندن منتقل کر دیا گیا اور وہ ان کی انتخابی مہم ان کی بیٹی مریم نواز نے چلائی اور وہ کامیاب بھی ہوئیں۔

لندن میں ڈاکٹرز نے 22 اگست 2017 کو انہیں کیسنر کی تشخصی کی جس کے بعد ان کی متعدد سرجریز اور کیموتھراپیز ہوئیں۔ اس دوران کئی مرتبہ ان کی طبیعت سنبھل کر پھر خراب ہوئی۔

کلثوم نواز کو گزشتہ روز ایک مرتبہ پھر طبیعت بگڑنے پر اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ دوران علاج ہی انتقال کر گئیں۔

پیر، 10 ستمبر، 2018

ہولو کاسٹ کیا ہے؟ حقیقت کیاہے اور کیا درپردہ سازش کارفرما ہے؟؟؟


مرگ انبوہ جسے انگریزی میں Holocaust کہا جاتا ہے دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جرمنی کے چانسلر ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں مبینہ قتلِ عام کا شکار ہونے والے یہودیوں سے منسوب ہے۔ اس کو یہودیوں کی نسل کشی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ہالوکاسٹ دراصل یونانی لفظ ὁλόκαυστον سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں “مکمل جلادینا“۔ اس طرح لاکھوں یہودی مرد، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ اشتراکیت پسندوں، پولینڈ کے مشترکہ قومیت کے حامل باشندے، غلاموں، معذوروں، ہم جنس پرستوں، سیاسی اور مذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ تاہم بیشتر ماہرین دیگر قومیتی و مذہبی افراد کے قتلِ عام کو مرگِ انبوہ کا حصہ ماننے سے صریحاً انکار کرتے ہوئے، اس کو یہودیوں کا قتلِ عام قرار دیتے ہیں ، یا جسے نازیوں نے “یہودیوں کے سوال کا حتمی حل“ قراردیا۔ اگر نازی افواج کی بربریت کا شکار ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو یہ تعداد تقریباً نو سے گیارہ ملین (90 لاکھ سے ایک کڑور دس لاکھ) تک جا پہنچتی ہے۔[5] یہ انسانیت سوز مظالم و نسل کشی کی مہم مرحلہ وار انجام دی گئی۔ یہودیوں کو مہذب معاشرے سے الگ کردینے کی قانون سازی دوسری جنگِ عظیم سے کئی سال پہلے کی جا چکی تھی۔ خصوصی توجیہی کیمپس میں قیدیوں سے اُس وقت تک غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا جب تک وہ تھکن یا بیماری کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں نہ چلے جائیں۔ جب نازی فتوحات کا سلسلہ مشرقی یورپ میں پہنچا تو اینساٹزگروپین (جرمنی کی خصوصی ٹاسک فورس) کو یہ ہدف دیا گیا کہ یہودیوں اور سیاسی حریفوں کو بے دریغ قتل کر دیا جائے۔ یہودیوں اور رومانیوں کو سینکڑروں میل دور بنائے گئے، مقتل گاہوں پر جانوروں کی طرح کی ریل گاڑیوں میں ٹھونس کر گھیتو منتقل کر دیا گیا، جہاں زندہ پہنچ جانے کی صورت میں اُنہیں گیس چیمبر کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ جرمنی کے تمام افسرِ شاہی اس عظیم نسل کشی میں پیش پیش تھے، جس نے اس ملک کو “نسل کشی کے اڈے“ میں تبدیل کر دیا۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مرگ انبوہ پر ترمیم پسندانِ مرگ انبوہ (یہ خود کو revisionists کہلاتے ہیں مگر مرگ انبوہ كى وقوع پذيرى ميں یقین رکھنے والے ان کو Holocaust deniers کہتے ہیں) کے گروہ بھی موجود ہیں۔ دنیا میں 13 ممالک، جن میں فرانس اور جرمنی شامل ہیں، میں قوانین ہیں جو مرگ انبوہ پر نظر ثانیاوراس کے بارے میں تحقیق کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ اس پر تحقیقی بحث سے بھی بعض ممالک میں تین سے دس سال تک قید کی سزا اور جرمانے بھی ہوسکتے ہیں۔ انكارِ مرگ انبوه كو نفرت انگيز اظہار مانا جاتا ہے جس كے باعث اُن ممالک ميں ايسے اظہار کو قوانينِ آزادىِ اظہار کے تحت تحفظ حاصل نہيں
Image result for holocaust
)تجدید پسندان مرگ انبوہ(ہولوکاسٹ()جو خود کو ترمیم پسندکہلواتے ہیں مگر  یہود  اور مرگ انبوہ پر مکمل یقین رکھنے والے ان کو منکرینِ مرگ انبوہ کہتے ہیں -اس بات پر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ مرگ انبوہ میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ  یہود قتل ہوئے تھے یا اسے سرے سے کہانی سمجھتے ہیں مگر زیادہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرگ انبوہ پر نئے سرے سے تحقیق ہونا چاہئیے کہ اس میں مرنے والوں کی اصل تعداد کیا تھی۔ ان کے خیال میں یہ ساٹھ لاکھ سے بہت کم تھی اور اتنی بڑی تعداد کا ذکر پہلی دفعہ مرگ انبوہ کے کئی سال بعد سامنے آیا جس کا مقصد اسرائیل کے وجود کو بہانہ مہیا کرنا تھا۔ انکار ِ مرگِ انبوہ اکثر یوروپی و بحر اوقیانوسی ممالک میں اب باقاعدہ قابلِ سزا جرم ہے۔ ڈنمارک کے اخبار جائلینڈ پوسٹن کیطرف سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کےبعدایرانی صدر احمدی نژاد اور ایران تجدید پسندانِ مرگِ انبوہ کے علم بردار بنکر سامنے آئے۔ حتیٰ کہ 11 دسمبر 2006ء کو بین الاقوامی کانفرنس برائے نظر ثانی برنظریہ عالم بابت ہولوکاسٹ منقعد کی گئی۔
جیساکہ درج بالا تاریخی حوالوں سے ثابت ہوا کہ یورپ سے باربار کی ذلت آمیز یہودی بیدخلی کے بعد یورپی (اشکنازی) یہود نے ہمیشہ اقتصادی اور تجارتی پیشے اختیار کرکے اربابِ اقتدار سے قریب تر ہوتے رہے۔ پہلی جنگ عظیم کی جرمن شکست کے محرکات میں سے (دائیں بازو کی نظریات والوں کے نزدیک) وہ یہود ریپبلکن تھے جنہوں نے دورانِ جنگ ہی 19-1918ء کےجرمن بغاوت میں بادشاہت کا تختہ الٹ کر جرمن فوج کو شکست سے دوچار اور اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔ چنانچہ جب نازی اقتدار میں آئے تو انہوں نےجمہوریہ ویمار کو مجرمینِ نومبر کا شاخسانہ قرار دیا جنہوں نے اقتدارکے حصول کے لیے عوام سے غداری کر کے جرمن مفاد کی پیٹھ میں چھرا گھونپاتھا۔ نازی پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم ہونیوالی جمہوریہ ویمار کو بدعنوانی کی دلدل، قومی تذلیل ،ایماندار حزبِ اختلاف کو بے رحم ایذارساں ریاست گردانتے تھے اور ان 14 سالوں کو یہود ، مارکسیت کے معتقدین اور بولشیوک ثقافتی اقتدار کے سال قرار دیتے تھے۔ برلن میں 1918ء-1916ء تک برطانوی فوجی مشن کے سربراہ جنرل نیل مالکومنے جرمن فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل ایرک لوڈنڈورف سے جنگ کے بعد 1919ء میں ایک ضیافت کے دوران میں جرمن شکست کے اسباب کے متعلق پوچھا ۔ لوڈنڈورف نے گھر کے محاذ کی ناکامی کیساتھ ساتھ کئی اور عذر بھی گِنوائے۔ پھر جنرل مالکوم نے پوچھا
جنرل کیا آپکی پیٹھ میں چھراگھونپا گیا؟"جنرل لوڈنڈورف نے چمکتی آنکھوں سے یہ فقرہ فوراً اچک لیا اور دھراتے ہوئے پوچھا "پیٹھ میں چھراگھونپا گیا؟" پھر تائید کرتے کہا "ہاں، یہی ،بالکل یہی،میں اسی لفظ کی تلاش میں تھا ، واقعی ہماری پیٹھ میں چھراہی تو گھونپا گیا-
1919ء میں سام دشمن تنظیم Deutschvölkischer Schutz und Trutzbund کے لیڈر الفریڈ روتھ کی کتاب "فوج میں یہود" میں یہودی مردم شماری کے نتائج اکھٹے کیے گئے جنکے مطابق فوج میں زیادہ تر یہود موقع پرست، منافع خور یا جاسوس تھے۔ یہودی سازش کی فرد جرم میں برلن کا پیدائشی اور میونخ کا رہائشی یہودی صحافی اور نقاد کرٹ آئزنر جو 191٦ء کے بعد سے جنگ کے ناجائز ہونے کے متعلق لکھتا رہا اور جس کا میونخ کی بغاوت میں بہت بڑا ہاتھ تھا جنگ کیبعدقتل کر دیا گیا۔ نئی وجود میں آئی جرمن ریاست ویمار کے عبوری صدر فریڈرک ایبرٹ واپس آنے والے غازیوں کو سلامی دینے کی تقریب میں کہتے جاتے "دشمن نے تمہیں شکست نہیں دی، دشمن نے تمہیں شکست نہیں دیاگرچہ اب جرمن اور غیر جرمن سکالر اور مؤرخین اس تصور کو یکسر مسترد کرتے آ رہے ہیں اور وسائل کی کمی کو جرمن مغلوبیت کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ [27] تاہم یہود کے مطابق دوسری جنگِ عظیم کے آغاز تک یورپ میں رہنے والے اندازاً 80لاکھ یہود اشکنازی تھے جس میں سے 60 لاکھ کو منظم طریقے سے قتل کیا گیا۔ 91پولش یہود کو، 60یوکرینی یہود کو، 50–90 % جرمنی، ہنگریاور بالٹک ریاستوں کے سلاو یہود کو، 25 % سے زیادہ فرانس کے یہود کو قتل کیا گیا۔ کچھ ممالک میں بشمول یونان ہالینڈ اور سابقہ یوگوسلاویہ میں سفاردی برادریاں اسی طرح کی نسل کشی کا شکار ہوئے۔ چونکہ اکثر متاثرین اشکنازیوں سے تھے اسلیے دنیا یہود میں انکی تعداد 1931ء کے 92% سے کم ہوکر آجکل84% فیصد ہو گئی ہے۔ ہولوکاسٹ یدش کی ترقی اور پیشرفت پر بھی اثرانداز ہوا چونکہ متاثرین ہولوکاسٹ کی اکثریت تقریباً 5٠ لاکھ یدش بولنے والے قتل ہوئے تھے، جو جنگ کے بعد امریکا برطانیہ ارجنٹینا کینیڈا آسٹریلیا اور اسرائیل منتقل ہو گئے۔ اسرائیل کی موجودہ کل آبادی کا 35% اور یہودی آبادی کا 45% اشکنازی ہیں۔