مرگ انبوہ جسے انگریزی میں Holocaust کہا جاتا ہے دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جرمنی کے چانسلر ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں مبینہ قتلِ عام کا شکار ہونے والے یہودیوں سے منسوب ہے۔ اس کو یہودیوں کی نسل کشی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ہالوکاسٹ دراصل یونانی لفظ ὁλόκαυστον سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں “مکمل جلادینا“۔ اس طرح لاکھوں یہودی مرد، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ اشتراکیت پسندوں، پولینڈ کے مشترکہ قومیت کے حامل باشندے، غلاموں، معذوروں، ہم جنس پرستوں، سیاسی اور مذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ تاہم بیشتر ماہرین دیگر قومیتی و مذہبی افراد کے قتلِ عام کو مرگِ انبوہ کا حصہ ماننے سے صریحاً انکار کرتے ہوئے، اس کو یہودیوں کا قتلِ عام قرار دیتے ہیں ، یا جسے نازیوں نے “یہودیوں کے سوال کا حتمی حل“ قراردیا۔ اگر نازی افواج کی بربریت کا شکار ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو یہ تعداد تقریباً نو سے گیارہ ملین (90 لاکھ سے ایک کڑور دس لاکھ) تک جا پہنچتی ہے۔[5] یہ انسانیت سوز مظالم و نسل کشی کی مہم مرحلہ وار انجام دی گئی۔ یہودیوں کو مہذب معاشرے سے الگ کردینے کی قانون سازی دوسری جنگِ عظیم سے کئی سال پہلے کی جا چکی تھی۔ خصوصی توجیہی کیمپس میں قیدیوں سے اُس وقت تک غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا جب تک وہ تھکن یا بیماری کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں نہ چلے جائیں۔ جب نازی فتوحات کا سلسلہ مشرقی یورپ میں پہنچا تو اینساٹزگروپین (جرمنی کی خصوصی ٹاسک فورس) کو یہ ہدف دیا گیا کہ یہودیوں اور سیاسی حریفوں کو بے دریغ قتل کر دیا جائے۔ یہودیوں اور رومانیوں کو سینکڑروں میل دور بنائے گئے، مقتل گاہوں پر جانوروں کی طرح کی ریل گاڑیوں میں ٹھونس کر گھیتو منتقل کر دیا گیا، جہاں زندہ پہنچ جانے کی صورت میں اُنہیں گیس چیمبر کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ جرمنی کے تمام افسرِ شاہی اس عظیم نسل کشی میں پیش پیش تھے، جس نے اس ملک کو “نسل کشی کے اڈے“ میں تبدیل کر دیا۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مرگ انبوہ پر ترمیم پسندانِ مرگ انبوہ (یہ خود کو revisionists کہلاتے ہیں مگر مرگ انبوہ كى وقوع پذيرى ميں یقین رکھنے والے ان کو Holocaust deniers کہتے ہیں) کے گروہ بھی موجود ہیں۔ دنیا میں 13 ممالک، جن میں فرانس اور جرمنی شامل ہیں، میں قوانین ہیں جو مرگ انبوہ پر نظر ثانیاوراس کے بارے میں تحقیق کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ اس پر تحقیقی بحث سے بھی بعض ممالک میں تین سے دس سال تک قید کی سزا اور جرمانے بھی ہوسکتے ہیں۔ انكارِ مرگ انبوه كو نفرت انگيز اظہار مانا جاتا ہے جس كے باعث اُن ممالک ميں ايسے اظہار کو قوانينِ آزادىِ اظہار کے تحت تحفظ حاصل نہيں
)تجدید پسندان مرگ انبوہ(ہولوکاسٹ()جو خود کو ترمیم پسندکہلواتے ہیں مگر یہود اور مرگ انبوہ پر مکمل یقین رکھنے والے ان کو منکرینِ مرگ انبوہ کہتے ہیں -اس بات پر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ مرگ انبوہ میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ یہود قتل ہوئے تھے یا اسے سرے سے کہانی سمجھتے ہیں مگر زیادہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرگ انبوہ پر نئے سرے سے تحقیق ہونا چاہئیے کہ اس میں مرنے والوں کی اصل تعداد کیا تھی۔ ان کے خیال میں یہ ساٹھ لاکھ سے بہت کم تھی اور اتنی بڑی تعداد کا ذکر پہلی دفعہ مرگ انبوہ کے کئی سال بعد سامنے آیا جس کا مقصد اسرائیل کے وجود کو بہانہ مہیا کرنا تھا۔ انکار ِ مرگِ انبوہ اکثر یوروپی و بحر اوقیانوسی ممالک میں اب باقاعدہ قابلِ سزا جرم ہے۔ ڈنمارک کے اخبار جائلینڈ پوسٹن کیطرف سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کےبعدایرانی صدر احمدی نژاد اور ایران تجدید پسندانِ مرگِ انبوہ کے علم بردار بنکر سامنے آئے۔ حتیٰ کہ 11 دسمبر 2006ء کو بین الاقوامی کانفرنس برائے نظر ثانی برنظریہ عالم بابت ہولوکاسٹ منقعد کی گئی۔
جیساکہ درج بالا تاریخی حوالوں سے ثابت ہوا کہ یورپ سے باربار کی ذلت آمیز یہودی بیدخلی کے بعد یورپی (اشکنازی) یہود نے ہمیشہ اقتصادی اور تجارتی پیشے اختیار کرکے اربابِ اقتدار سے قریب تر ہوتے رہے۔ پہلی جنگ عظیم کی جرمن شکست کے محرکات میں سے (دائیں بازو کی نظریات والوں کے نزدیک) وہ یہود ریپبلکن تھے جنہوں نے دورانِ جنگ ہی 19-1918ء کےجرمن بغاوت میں بادشاہت کا تختہ الٹ کر جرمن فوج کو شکست سے دوچار اور اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔ چنانچہ جب نازی اقتدار میں آئے تو انہوں نےجمہوریہ ویمار کو مجرمینِ نومبر کا شاخسانہ قرار دیا جنہوں نے اقتدارکے حصول کے لیے عوام سے غداری کر کے جرمن مفاد کی پیٹھ میں چھرا گھونپاتھا۔ نازی پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم ہونیوالی جمہوریہ ویمار کو بدعنوانی کی دلدل، قومی تذلیل ،ایماندار حزبِ اختلاف کو بے رحم ایذارساں ریاست گردانتے تھے اور ان 14 سالوں کو یہود ، مارکسیت کے معتقدین اور بولشیوک ثقافتی اقتدار کے سال قرار دیتے تھے۔ برلن میں 1918ء-1916ء تک برطانوی فوجی مشن کے سربراہ جنرل نیل مالکومنے جرمن فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل ایرک لوڈنڈورف سے جنگ کے بعد 1919ء میں ایک ضیافت کے دوران میں جرمن شکست کے اسباب کے متعلق پوچھا ۔ لوڈنڈورف نے گھر کے محاذ کی ناکامی کیساتھ ساتھ کئی اور عذر بھی گِنوائے۔ پھر جنرل مالکوم نے پوچھا
” | جنرل کیا آپکی پیٹھ میں چھراگھونپا گیا؟"جنرل لوڈنڈورف نے چمکتی آنکھوں سے یہ فقرہ فوراً اچک لیا اور دھراتے ہوئے پوچھا "پیٹھ میں چھراگھونپا گیا؟" پھر تائید کرتے کہا "ہاں، یہی ،بالکل یہی،میں اسی لفظ کی تلاش میں تھا ، واقعی ہماری پیٹھ میں چھراہی تو گھونپا گیا- | “ |
1919ء میں سام دشمن تنظیم Deutschvölkischer Schutz und Trutzbund کے لیڈر الفریڈ روتھ کی کتاب "فوج میں یہود" میں یہودی مردم شماری کے نتائج اکھٹے کیے گئے جنکے مطابق فوج میں زیادہ تر یہود موقع پرست، منافع خور یا جاسوس تھے۔ یہودی سازش کی فرد جرم میں برلن کا پیدائشی اور میونخ کا رہائشی یہودی صحافی اور نقاد کرٹ آئزنر جو 191٦ء کے بعد سے جنگ کے ناجائز ہونے کے متعلق لکھتا رہا اور جس کا میونخ کی بغاوت میں بہت بڑا ہاتھ تھا جنگ کیبعدقتل کر دیا گیا۔ نئی وجود میں آئی جرمن ریاست ویمار کے عبوری صدر فریڈرک ایبرٹ واپس آنے والے غازیوں کو سلامی دینے کی تقریب میں کہتے جاتے "دشمن نے تمہیں شکست نہیں دی، دشمن نے تمہیں شکست نہیں دی" اگرچہ اب جرمن اور غیر جرمن سکالر اور مؤرخین اس تصور کو یکسر مسترد کرتے آ رہے ہیں اور وسائل کی کمی کو جرمن مغلوبیت کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ [27] تاہم یہود کے مطابق دوسری جنگِ عظیم کے آغاز تک یورپ میں رہنے والے اندازاً 80لاکھ یہود اشکنازی تھے جس میں سے 60 لاکھ کو منظم طریقے سے قتل کیا گیا۔ 91% پولش یہود کو، 60% یوکرینی یہود کو، 50–90 % جرمنی، ہنگریاور بالٹک ریاستوں کے سلاو یہود کو، 25 % سے زیادہ فرانس کے یہود کو قتل کیا گیا۔ کچھ ممالک میں بشمول یونان ہالینڈ اور سابقہ یوگوسلاویہ میں سفاردی برادریاں اسی طرح کی نسل کشی کا شکار ہوئے۔ چونکہ اکثر متاثرین اشکنازیوں سے تھے اسلیے دنیا یہود میں انکی تعداد 1931ء کے 92% سے کم ہوکر آجکل84% فیصد ہو گئی ہے۔ ہولوکاسٹ یدش کی ترقی اور پیشرفت پر بھی اثرانداز ہوا چونکہ متاثرین ہولوکاسٹ کی اکثریت تقریباً 5٠ لاکھ یدش بولنے والے قتل ہوئے تھے، جو جنگ کے بعد امریکا برطانیہ ارجنٹینا کینیڈا آسٹریلیا اور اسرائیل منتقل ہو گئے۔ اسرائیل کی موجودہ کل آبادی کا 35% اور یہودی آبادی کا 45% اشکنازی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں