بدھ، 12 ستمبر، 2018

حضرت عمر رضی اللہ ؑنہ کی تاریخ شہادت میں اختلاف کی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔

     

    حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (ابو حفص عمر بن الخطاب العدوي القریشي) لقب فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان - وفات: 7 نومبر، 644ء مدینہ میں)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد ہیں۔حضرت عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ آپ ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
        آپ کی   یوم شہادت کے بارے میں بہت سی متنازعہ روایات مشہور ہیں۔ عموما یکم محرم الحرام  ان کا یوم شہہادت  کے طور پر منایا جاتا ہے۔تاریخ کی کتب کسی ایک موقف پر متفق نہیں ۔ ہم یہاں کچھ روایات کا زکر کرتے ہیں۔
        تاریخ ِاسلام  کے مطابق چہار شنبہ 27 ذی الحجہ 23ھ کو آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تھے۔ اور یکم محرم سنہ 24ھ کو ہفتہ کے دن فوت ہوکر مدفون ہوئے۔ (تاریخ اسلام، جلداول۔ص440) اور یہی بات البدایۃ والنہایۃ جلدہفتم ص176 پر بھی موجود ہے۔
        حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :أميرالمؤمنين مشهور جم المناقب استشهد في ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين
وولي الخلافة عشر سنين ونصفا تقریب التہذیب
حضرت عمر کے ذوالحج میں فوت ہونے یہ واضح موقف ابن حجر نے اپنایا ہے ، اور ابن اثیر رحمہ اللہ نے تو صراحت کے ساتھ لکھا ہے :طعن عمر يوم الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين وكانت خلافته عشر سنين وخمسة أشهر وأحدا وعشرين يوما وقال عثمان بن محمد الأخنسي هذا وهم
توفي عمر لأربع ليال بقين من ذي الحجة وبويع عثمان يوم الاثنين لليلة بقيت من ذي الحجة
حضرت عمر محرم سے چار دم پہلے فوت ہو گئے تھے اورحضرت عثمان کی سوموار کو ہوئی جب ذوالحج کی ایک رات باقی تھی(اسد الغابۃ:3ج،545)
مشہور مورخ ابن خلدون نے لکھا ہے :
ولم يزل يذكر الله إلى أن توفى ليلة الاربعاء لثلاث بقين من ذى الحجة سنة ثلاث وعشرين
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی وفات 23 ذواالحج کو ہوئی۔
اور سیدنا امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت و فضائل پر نویں صدی ہجری ۔۔یعنی آج سے پانچ سو سال قبل لکھی گئی جامع ،مفصل کتاب(( محض الصواب في فضائل أمير المؤمنين عمر بن الخطاب )) میں ذہبی رحمہ اللہ کے اسی قول کو سر فہرست نقل کیا ہے :
’’ قال الذهبي: "استشهد يوم الأربعاء لأربع أو ثلاث بقين من ذي الحجة، سنة ثلاث وعشرين من الهجرة، وهو ابن ثلاث وستين سنة على الصحيح ‘‘
آپ بدھ کے روز  زوالحج کے آخری تین یا  چار دن  قبل  ہجرت کے 23ویں      سال شہید ہوۓ۔اس وقت آپ کی عمر تریسٹھ سال تھی۔
علاوہ ازیں درج ذیل کتب کے مطابق٢٦ذوالحج ٢٣ہجری کو آپ کی شہادت ہوءی۔
طبقات ابن سعد جلد ٣صفحہ ١٤٧
تاریخ طبری جلد ٣صفحہ ٦٣٥
تاریخ ابن خلدون جلد ١صفحہ ٣٨٤
تاریخ الماسودی جلد ٦صفحہ ٦٤٠
تاریخ ابن کثیر جلد ٧صفحہ  ٦٧٩
دوسری جانب یکم محرم  کو درست ماننے والے یان روایات کا  رد  یوں کرتے ہیں طبقات ابن سعد (ج 3 ص 123 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) میں  اول تو امام ابن سعد نے اس معاملے میں از خود کوئی واضح تاریخ معین نہیں فرمائی۔ دوسرا کہ انہوں نے اس باب کا عنوان ہی 

ہولو کاسٹ کیا ہے؟ حقیقت کیاہے اور کیا درپردہ سازش کارفرما ہے؟؟؟

یہ بنایا ہے کہ حضرت عمر کی مدت خلافت اور حضرت عمر کی عمر کے متعلق مختلف اقوال۔ پھر ان میں پہلے ترجمۃ الباب کی روایت کمزور ہے۔ ابوبکر بن محمد بن سعد نامی راوی کا تذکرہ کیا تو اس میں اختلاف نہیں کہ وہ مہجول الحال ہے۔ اس طرح سے 26 ذی الحجہ والی روایت نہایت کمزور ہے
امام طبری نے بھی ابن سعد کی طرح ان کی تاریخ وفات کے اختلاف کا تذکرہ کیا ہے۔ چنانچہ پہلا قول تو 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے اور یہ روایت بھی نہایت کمزور ہے کیونکہ اس کے دو راوی سلیمان بن عبد العزیز اور جعفر بن عبد الرحمن تو مجہول الحال ہیں اور ایک راوی عبد العزیز بن عمران متروک ہے۔ دوسرا قول عبد العزیز بن عمران کا ہی ہے جو کہ بغیر کسی جرح کے 1 محرم کا بتایا ہے۔ تیسرا قول وہی ابن سعد کا ہی ذکر کیا ہے کہ 26 ذی الحجہ کو ہوئی لیکن جیسا پہلے واضح ہو چکا کہ وہ روایت انتہائی کمزور ہے۔ چوتھا قول ابو معشر کا 26 ذی الحجہ کا ہے جو احمد بن ثابت الرازی کے طریق سے ہے جو کہ کذاب تھا۔ پانچواں قول ہشام بن محمد کا 27 ذی الحجہ کا ہے جو کہ بلا سند اور منقطع ہے جو نہایت ہی کمزور ہے
تاریخ ابن خلدون میں ابن خلدون نے اگرچہ 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے مگر بلا سند ہے اور اس کا مضمون تقریبا وہی ہے جو تاریخ طبری کا پہلا 

وحشی نے حضرت حمزہ کے قتل کا بدلہ کیسے چکایا؟؟؟

قول ہے جس کی سند نہایت کمزور ہے۔ اگرچہ یہ بھی نہایت ہی کمزور قول ہے ۔
چوتھا حوالہ تاریخ مسعودی کا ہے۔ علی بن حسین المسعودی شیعہ رافضی ہے جس کا قول ہمارے لئے حجت نہیں۔
تاریخ ابن کثیر مٰیں حافظ ابن کثیر نے کئی اقوال نقل کر کے پہلے قول ہی کو ترجیح دی ہے جو کہ 1 محرم الحرام کا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ کم و بیش تقریبا ہر مورخ نے ہی ان پر ابو لولو فیروز کے حملہ کرنے سے شہادت کے دن تک کا درمیانی حصہ تین یا چار دن ذکر کیا ہے۔ ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ حضرت عمر پر حملہ 26 یا 27 ذی الحجہ کو ہوا اور ان کی شہادت اس واقعہ کے تیسرے یا چوتھے دن بعد 1 محرم الحرام کو ہوئی اور حجرہ عائشہ میں اسی روز دفن ہوئے۔ اس بارے میں حافظ ابن کثیر کی صراحت و اضح ہے۔ واللہ سبحان وتعالی اعلم

1 تبصرہ: