تحریر:
انجینر عمران مسعود
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے پروفیسر جنید حفیظ جس کو توہین رسالت ﷺ کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہے. جب اس کی مبینہ گستاخی کی
تفصیلات سے آگاہ ہوا تو ایک لمحے کے لیے زمانہ طالب علمی میں چلا گیا جب ہم اپنی
یونیورسٹی کے کچھ پروفیسر حضرات کے بارے سنا کرتے تھے کہ ان کے نظریات بہت اوپن
ہیں اور اسلامی تعلیمات کو بھی تنقید کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے. ان میں دو
مرد اور ایک خاتون پروفیسر شامل تھی. ان میں سرفہرست شعبہ فائن آرٹس کے ایک
پروفیسر تھے جن کے بارے تاثر یہی تھا کہ وہ دہریے ہیں. ایک بار فیسبک مسنجر پہ
رجوع الااللہ سے متعلق ایک میسج میں نے دوستوں کو بھیجا جو موصوف کو بھی بھیج دیا
تو انہوں نے بہت گستاخانہ اور تضحیک آمیز جواب دیا جو کو شان الہی میں گستاخی تھی.
جس کا میں نے ان کو جواب دیا لیکن مجھے بلاک کردیا گیا. کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ
وہ امریکہ چلا گیا. بہرحال
یہ بات 10 سال پرانی ہے. پچھلے دنوں میں
ایک کالم نظر سے گزرا جس میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے ہی کے ایک پروفیسر نے
انکشاف کیا کہ جنید حفیظ جیسے اور بھی بہت سے پروفیسرہیں جو کہ لادینیت کا شکار
ہیں اور اپنے نظریات طلبا کے زہنوں میں ڈالتے رہتے ہیں.
پاکستان کی تمام بڑی جامعات میں ایک کثیر
تعداد ان اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کی ہے جو کہ لادینیت کا شکار ہیں. جن پر آئے دن
مذہبی طلبا تنظیمیں احتجاج کرتی نظر آتی ہیں مگر افسوس کہ حقائق کو جانے بغیر
مذہبی انتہا پسندی کی آڑ لے کر یکطرفہ کاروائی کے نتیجے میں تشدد کی فضا بڑھتی جا
رہی ہے.
جنید حفیظ کو پھانسی ہوتی ہے یا نہیں لیکن
اس سے قطع نظر میں اس سوچ کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا جس کے نتیجے میں ہمارے قابل
ترین اور پڑھے لکھے لوگ الحاد اور لادینیت کا شکار ہو جاتے ہیں. بڑے قابل اور
سکالرشپ لینے والے نوجوان جب بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو ان میں سے ایک
تعداد مذہب بیزاری اور الحاد کا شکار ہو جاتی ہے.
آج کے دور کی نوجوان نسل کو میڈیا نے اتنا
شعور دے دیا ہے کہ وہ سوال کرتی ہے. اپنے سوال کے جواب میں دلیل مانگتی ہے. اور
یہی معاملہ ہمارے دین کا بھی ہے.
بہت سے ایسے نوجوان ہیں جو اسلام اور دین
کی تعلیمات سے متنفر ہو رہے ہیں وجہ صرف ہمارے نظام تعلیم میں دین کی نامکمل آگاہی
ہے. دین کے مزاج سے نا آشنا ہمارے مسلمان نوجوان جب بیرون ممالک جاتے ہیں جہاں
فلسفہ اور منطق بہت شدت سے معاشرے میں رائج ہے. جب اسی پیرائے میں دین کی تعلیمات
کو دیکھتے ہیں تو شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں. اسی طرح کچھ مخصوص اعتراضات
جو کہ اسلام اور قرآن سے متعلق ہیں جن کے بارے عام مسلمان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا
ان کے سامنے آتے ہیں تو ذہنی انتشار میں مبتلا ہونے لگتے ہیں. نتیجتاً کچھ لاشعوری
اور چند شعوری طور پر دین بیزار اور الحاد کا شکار ہونے لگتے ہیں. اب چونکہ تمام
اسلامی ممالک میں قوانین اس معاملے میں سخت ہیں لہذا اکثر تو خاموش رہتے ہیں لیکن
کچھ آوٹ سپوکن ان خیالات کا اظہار کر دیتے ہیں اور نتیجتاً ایک انتشار کی فضا پیدا
ہوتی ہے. اور توہین رسالت جیسے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں.
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاملے کو مذہبی
انتہا پسندی کے کھاتے ڈال دیا جاتا ہے. یا اگر بہت زیادہ ہو تو یہ مواد ہٹانے اور
بلاک کرنے پر اکتفا کر لیا جاتا ہے. لیکن اس سوچ کے آگے بند باندھنے یا دین کی
آگاہی سے متعلق کوئی خاطر خواہ اقدامات میڈیا اور حکومت کی طرف سے نظر نہیں آتے.
اور یوں معاشرے میں انتشار کی فضا کو ہوا ملتی ہے اور اسلام دشمن عناصر جو پہلے ہی
موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں وہ ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہمارے
نوجوان لاشعوری طور پر ان کا آلہ کار بننے لگتے ہیں.
آج انہی غفلتوں کے باعث مذہبی اور لبرل
طبقہ کی خلیج بڑھتی جارہی ہے. دو انتہائی رویے جنم لے رہے ہیں. ایک طرف مذہبی
انتہا پسندی تو دوسری جانب سیکولر اور ملحدانہ سوچ. اور یہ سب صرف آزادیِ رائے کے
نام پر ہو رہا ہے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء اور اربابِ
اختیار اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کریں. ہم نے فرقہ واریت اور شدت پسندانہ رویوں
سے بہت نقصان اٹھایا ہے لیکن اب ہم مزید اس کے متحمل نہیں ہو سکتے. اللہ اس قوم پہ
اپنا فضل کرے اور ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.
#junaidhafeez #blasphemy #religiousthoughts #extremist #extremism #junaidhafeezcase
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں