پیر، 24 فروری، 2020

اردو ہے جس کا نام... تحریر انجینئر عمران مسعود

25 فروری 1948 میَں پاکستان کی قومی زبان اردو کو تسلیم کر لیا گیا. لیکن آج تک بطور سرکاری زبان رائج نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی نصاب کو اس کے مطابق مرتب کیا گیا. دوسری جانب ہر سال بھارت میں عالمی یوم اردو 9 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ تاریخ اردو کے مشہور شاعر اور برصغیر کے فلسفی علامہ محمد اقبال کا یوم پیدائش ہے۔
کچھ لوگ اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان بتانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ اردو تقاریب میں غیر مسلم اردو شاعروں، مصنفوں، مدرسوں اور دیگر محبان اردو کی کوششوں کو سراہنے اور آگے کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ہی میں سے کچھ پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سنٹر فار انڈین لینگویجز اور آل انڈیا ایسوسی ایشن آف اردو ٹیچرز آف کالجز اینڈ یونیورسیٹیز نے مطالبہ کیا ہے کہ 31 مارچ کو یوم اردو منانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن پنڈت دیو ناراین پانڈے اور جے سنگھ بہادر نے اردو کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے اپنی جانیں دیں۔

اقبال کے برعکس یہ دو حضرات اردو کے شاعر نہیں تھے۔ یہ لوگ اردو محافظ دستہ کے حامی تھے جس نے بھوک ہڑتال کی تھی تاکہ اردو کو اتر پردیش جیسی ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ پانڈے بھوک ہڑتال پر 20 مارچ، 1967ء پر کانپور میں کلکٹر کے دفتر کے رو بہ رو بیٹھے تھے جب کہ سنگھ ایک گروہ کا حصہ تھے جس نے لکھنؤ میں قانون ساز اسمبلی کے رو بہ رو دھرنا دیا۔ پانڈے 31 مارچ کو وفات پا گئے جب کہ سنگھ نے اس کے کچھ دنوں بعد اردو کی راہ اپنی جان کی قربانی دی.
قیامِ پاکستان کے بعد، پاکستانی قومیت کے تصّور کے فروغ نہ پا سکنے کی جہاں دیگر سیاسی، مذہبی، معاشی وجوہ تھیں وہیں تہذیبی اور ثقافتی حوالوں سے بھی کئی تضادات اور اختلافات موجود تھے۔ یہ اختلافات حکومتی سطح پر بھی تھے اور پاکستانی معاشرہ کے مختلف طبقات میں بھی گہرے اور واضح تھے پاکستان کی 7.57 فیصد آبادی کی مادری زبان اردو ہے۔ تاہم قیامِ پاکستان کے فوری بعد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پُرخلوص وضاحت اور پاکستان کی تمام صوبائی زبانوں کے حقوق کی 21 اور 24 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں دی گئی ان کی ضمانت کے باوجود بعض طبقات کی جانب سے لسانی مفاہمت کی بجائے مخاصمت پر مبنیٰ پروپیگنڈہ جاری رہا۔ اس کے ردِ عمل میں حکومتی سطح پر بعض ایسے انتظامی اقدامات کیے گئے جس کی وجہ سے پسِ پردہ قوتیں پاکستان میں اُردو زبان کو متنازع اور اسے دیگر علاقائی زبانوں، خصوصاً بنگلہ زبان، کی حریف اور مدِ مقابل بنا کر پیش کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اسلام کے نظریہ قومیت سے قطع نظر، پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے۔ 1947ء سے 1955ء کے دوران، پاکستان کے دونوں حصوں میں بسنے والی مختلف لسانی قومیتوں کی زبانوں کو ہائی اسکول کی سطح تک ذریعہ تعلیم بنایا گیا جبکہ اُردو کو لازمی مضمون کے طور پر پانچویں جماعت سے شروع کیا گیا۔1956ء میں مملکت کے پہلے آئین میں اُردو اور بنگلہ ہر دو، زبانوں ،کو قومی زبانیں تسلیم کر لیا گیا۔ یہ آئین پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے ہی دیا۔ یوں مسلم لیگ اپنے تاریخی مؤقف سے ہٹ گئی۔ اس سے قومی زبان کا مسئلہ حل تو نہ ہوا لیکن نئے لسانی مسائل ضرور پیدا ہو گئے۔ 1955ء سے 1968ء کے دوران میں بلوچستان، شمال مغربی سرحدی صوبہ( اب صوبہ خیبر پختونخوا) اور پنجاب میں اُردو کو پرائمری سے ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ تاہم صوبہ سندھ اور بنگال ( اب بنگلہ دیش) میں یہ پانچویں جماعت سے ذریعہ تعلیم بنائی گئی۔ 1968ء سے 1977ء کے دوران میں اُردو کو قومی زبان کا درجہ ملا مگر ساتھ ہی دیگر علاقائی زبانوں کی بھی اس طرح سرپرستی کی گئی کہ وہ اپنے اپنے حلقۂ اثر میں مقامی سطح تک ذریعہ تعلیم بن سکیں۔ تاہم صوبہ پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں میں یہ یونیورسٹی کی سطح تک بھی ذریعہ تعلیم بنی رہیں۔ 1977ء کے بعد، اُردو کی بطور قومی زبان تمام صوبوں میں تعلیم و تدریس ہوتی رہی ،تاہم دیگر علاقائی زبانیں بھی پرائمری کی سطح تک پڑھائی جاتی رہیں۔ بلوچستان واحد صوبہ تھا جہاں اُردو کو پہلی جماعت سے ہی لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانے لگا۔

جمعہ، 21 فروری، 2020

مسئلہ فدک . ایک علمی جائزہ ... تحریر :انجینئر عمران مسعود



گزشتہ دنوں نجی ٹی وی چینل پر خاتون وکیل سیفی علی خان نے ایک ٹاک شو میں انصاف سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ انصاف تو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ کو بھی نہیں ملا جو کہ صریحاْ مسئلہ فدک کی طرف اشارہ تھا. یہ ایسا مسئلہ ہے جو صدیوں سے سنی اور شیعہ کے درمیان وجہ نزع بنا آرہا ہے. پھر ذاکرین نے جس طرح مسالہ لگا کر اس واقعے کو بیان کیا اور خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس نے انتہا پسندی کی فضا کو جنم دیا ہے. اور آج کل سوشل میڈیا پر سنی شیعہ اختلاف کی فضا بنی ہوئی ہے.
اس مسئلے میں دونوں فریق امت کی بہترین شخصیات شامل ہیں لہذا اس کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے محتاط رویہ اپنانا چاہیے. اس موضوع پہ اپنی گزارشات رکھنے سے قبل ایک تلخ حقیقت جان لینی چاہیے کہ زیادہ تر لوگ اپنی عقیدت کی بنیاد پر روایات اور احادیث کو دیکھتے ہیں نہ کہ علمی بنیاد پر اور اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سی من گھڑت روایات بھی ہمارے نظریات میں شامل ہو گئی ہیں. جو روایت ہماری عقیدت کے خلاف ہوتی ہے وہ رد کر دی جاتی جبکہ اپنے عقیدت کے موافق باطل روایات بھی قبول کر لی جاتی ہیں اور اس طرح کی باطل روایات فریقین کی کتابوں میں بکثرت ملتی ہیں. منبروں اور مجالس میں بھی بیان ہوتی ہیں. اس مناظرانہ ماحول میں حقائق کہیں دب کے رہ جاتے ہیں.
فدک کے معاملے میں تین آرا ہیں. ہم ان کا الگ الگ جائزہ لیں گے. اور فرقہ وارانہ تعصب سے ہٹ کر اس معاملے کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے. 
1 فدک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو نبی ﷺ نے ہبہ کردیا تھا جو کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حکومتی تحویل میں لے لیا تھا.
2 فدک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا وراثتی حق تھا لیکن انبیا کی وراثت والی حدیث ضعیف ہے
3 انبیا کی وراثت والی حدیث صحیح ہے لیکن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سے لاعلم تھی یا بھول گئی تھیں تو حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے یاد کروائی اور واپس پلٹا دیا.

پہلا موقف تو اسی وقت باطل ہوجاتا ہے جب اس کی تائید میں مذکورہ روایت اصول محدثین پہ موضوع ٹھہرتی ہے. سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت ہے کہ:
(( لَمَّا نَزَلَت ھٰذِہِ الآیَةُ :" وَآتِ ذَا القُربٰی حَقَّہُ " (بنی إسرائیل17: 26) دَعَا رَسُولُ ﷺ فَاطِمَةَ فَأَ عطَاھَا فَدَکَ ))
” جب یہ فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا کہ "اپنے عزیز و اقارب کو ان کا حق دیجئے"، تو رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلا کر باغِ فدک دے دیا۔“
(مسند البزّار(کشف الأستار): 2223)
موضوع (من گھڑت) :یہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ:
اس کے راوی عطیہ عوفی کو جمہور محدثینِ کرام نے "ضعیف "قرار دیا ہے۔
(تھذیب الأسماء واللغات للنوي:48/1، طرح التثریب لابن العراقي: 42/3، مجمع الزوائد للھیثمي: 412/1، البدرالمنیر لابن الملقن: 463/7، عمدۃ القاري للعیني: 250/6)
اس کو امام یحییٰ بن سعید قطان، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی، امام ابن عدی، امام دارقطنی، امام ابن حبان اور علامہ جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہ نے "ضعیف" قرار دیا ہے۔
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہوگیا تھا، جیساکہ :
٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عطیہ عوفی کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام نے اتفاق کرلیا ہے۔" (الموضوعات: 386/1)
٭نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے۔" (المغنی في الضعفاء: 62/2)
٭حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ باتفاقِ محدثین ضعیف ہے۔" (البدر المنیر: 313/5)
عطیہ عوفی تدلیس کی بُری قِسم میں بُری طرح ملوث تھا۔
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ کمزور حافظے والا تھا اور بُری تدلیس کے ساتھ مشہور تھا۔" (طبقات المدلّسین، ص: 50)
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ زیر بحث روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: "یہ روایت باطل ہے، اگر واقعی ایسا ہوتا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس چیز کا مطالبہ کرنے نہ آتیں جو پہلے سے ان کے پاس موجود اور ان کی ملکیت میں تھی۔" (میزان الاعتدال: 135/3)
٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اگر اس روایت کی سند صحیح بھی ہو تو اس میں اشکال ہے، کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور فدک تو سات ہجری میں خیبر کے ساتھ فتح ہوا۔ کیسے اس آیت کو اس واقعہ کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔" (تفسیر ابن کثیر:69/5م بتحقیق الدکتور سلامۃ)
تنبیہ: عطیہ عوفی اپنے استاذ ابو سعید محمد بن السائب الکلبی (کذاب) سے روایت کرتے ہوئے "عن أبي سعید" یا "حدثني أبو سعید" کہہ کر روایت کرتے ہوئے یہ دھوکا دیتا تھا کہ وہ سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کررہا ہے۔ یہ(والی) تدلیس حرام اور بہت بڑا فراڈ ہے۔ یاد رہے کہ عطیہ عوفی اگر عن ابی سعید کے ساتھ الخدری کی صراحت بھی کردے تو اس سے الکلبی ہی مراد ہے، سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ مراد نہیں ہیں۔
تفصیل کے لیے دیکھئے کتاب المجروحین لابن حبان (176/2)

صحیح حدیث: متواتر حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"ہماری میراث نہیں ہوتی۔ ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے۔" (صحیح البخاری:6727، صحیح مسلم: 1761، عن أبي ھریرۃ).
یہ صحیح حدیث "ہم انبیاء کی جماعت وراثت نہیں چھوڑتے"۔ صحیح سند کے ساتھ شیعہ کے ہاں بھی ثابت ہے!

کلینی نے الکافی میں ابو عبداللہ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:

"بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء کوئی دینا اور درہم ورثہ میں نہیں چھوڑتے بلکہ وہ علم ورثہ میں چھوڑتے ہیں، جس نے علم میں سے کچھ حاصل کرلیا، اس نے بہت بڑا حصہ حاصل کرلیا۔
[الکافی ۳۲/۱]

مجلسی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے:
یہ حدیث حسن اور موثوق ہے، جو کہ کسی بھی طرح صحیح سے کم نہیں۔
[مراة العقول ١١١/۱]

خمینی نے اس روایت سے استشہاد پیش کیا ہے اور کہا ہے:
"اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
[الحكومة الاسلامية ۹۳].
لہٰذا اس حدیث پہ طعن کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ انکار حدیث کا معاملہ کہاں تک جاتا ہے. پھر اسی حدیث کی توثیق مولا علی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے جب وہ اور حضرت عباس بنو نضیر اور مدینہ کے مال فے معاملے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے. حضرت عمر نے وراثت انبیا کی حدیث کی رکھی جس کی تصدیق دونوں احباب نے بھی کی. (صحیح مسلم 4577)
عمر رضی اللہ عنہ نے جس بات سے دلیل قائم کی وہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین «صفایا» ( منتخب مال ) تھے: بنو نضیر، خیبر، اور فدک، رہا بنو نضیر کی زمین سے ہونے والا مال، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ( ہنگامی ) ضروریات کے کام میں استعمال کے لیے محفوظ ہوتا تھا ۲؎، اور جو مال فدک سے حاصل ہوتا تھا وہ محتاج مسافروں کے استعمال کے کام میں آتا تھا، اور خیبر کے مال کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصے کئے تھے، دو حصے عام مسلمانوں کے لیے تھے، اور ایک اپنے اہل و عیال کے خرچ کے لیے، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال کے خرچہ سے بچتا اسے مہاجرین کے فقراء پہ خرچ کر دیتے۔ (سنن ابی داؤد 2967)
اس لحاظ سے اگر ان تینوں مالوں کو وراثت تسلیم کیا جائے تو تقسیم لازم ہے لیکن چونکہ یہ تینوں مال اوقاف کے ذمرے میں آتے ہیں اس لیے صرف انتظام یا سپردگی ہی ہوگی. چاہے تو ریاست خود انتظام لے یا کسی کو اس کا منتظم بنا دے. لہٰذا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مطالبہ اس کے انتظام کا تھا نہ کے اس میں سے اپنے حصے کا جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وراثت انبیا والی حدیث سنائی اور کہا کہ اس میں سے اہلبیت کا حصہ ملتا رہے گا لیکن علاقہ ان کے زیر انتظام نہیں دے سکتا. جسے حضرت فاطمہ سن کے ناراض ہوئیں اور کلام نہیں کیا.
اب یہاں اعتراض کرنے والوں نے حضرت ابوبکر صدیق کی ذات پہ تنقید کی کہ معاذ اللہ شائد اپنے ذاتی مفاد کے لیے انہوں نے اس علاقہ کی حوالگی سے انکار کیا. حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ فدک ان وفات کے بعد حضرت عمر کی تحویل میں آیا نہ کے خاندان ابوبکر کے.
دوسرا یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق سنت کی پیروی میں بہت سخت تھے اور اس سے ہٹ کر کوئی اقدام نہیں گوارا کرتے تھے. جس کی کچھ مثالیں یہاں بیان کرتا ہوں.
نبی کریمﷺ کی وفات کے وقت لشکر اسامہ روانگی کو تیار تھا جسے صحابہ نے تاخیر کے لیے کہا لیکن انہوں نے یہ کہ کے نہیں روکا کہ جسے رسول اللہ ﷺ روانہ کر چکے میں کیوں روکوں.
اسی طرح جمع قرآن کے مشورے میں بھی ان کا جواب یہی تھا کہ جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا میں کیوں کروں.
اسی طرح اور بہت سی مثالیں ان کی سیرت میں ملتی ہیں کہ وہ ہر اقدام کرنے سے قبل رسول اللہ ﷺ کی سنت کو دیکھتے تھے. اسی لیے فدک کے معاملے میں بھی ان کا موقف تھا کہ بطور سربراہ ریاست اس علاقہ کے انتظام کو بطور ریاستی املاک کے استعمال کرتے تھے لہٰذا بطور خلیفہ اس کے منتظم بھی وہی ہوں گے. اور حضرت فاطمہ کی ناراضگی بھی بتقاضا ئے بشریت تھی. نہ ہی یہ کفر اسلام کا مسئلہ تھا. اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ک بعد اس علاقہ کا خاندان ابی بکر کی بجائے خلافت کی زیر انتظام ہی رہنا اس کی دلیل ہے کہ ان کو اس میں کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا. بنو امیہ کے دور میں اس علاقہ کو خاندانی جاگیر بنا دیا گیا جو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے آل فاطمہ کے سپرد کر دی لیکن بنو امیہ کے دور میں ہونے والے اقدامات کا الزام حضرت ابوبکر صدیق پہ ڈالنا بھی ظلم ہے. کیونکہ ان کی ذات اور اولاد نے اس علاقہ سے کوئی منفعت حاصل نہیں کی.
دوسری جانب حضرت علی کا بھی ان کی بیعت کر لینا اس معاملے کو واضح کرتا ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے کفر یا نفاق لازم نہیں آتا.
دوسری جانب حضرت فاطمہ کی ناراضگی کے معاملے سے حضرت ابوبکر کی ذات نشانہ بنانا بھی ایک جزباتی اور غیر منصفانہ روش ہے.
قرآن میں حضرت موسی و ہارون کا جھگڑنے کا واقعہ موجود ہے لیکن اس کی بنیاد پہ حضرت ہارون علیہ السلام پہ نبی کی نافرمانی کا معاذاللہ فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا. اسی طرح نبی ﷺ نے جو فرمایا کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اس حدیث کا متن کچھ یوں ہے
مسور بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر فرما رہے تھے کہ ہشام بن مغیرہ جو ابوجہل کا باپ تھا اس کی اولاد ( حارث بن ہشام اور سلم بن ہشام ) نے اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کرنے کی مجھ سے اجازت مانگی ہے لیکن میں انہیں ہرگز اجازت نہیں دوں گا یقیناً میں اس کی اجازت نہیں دوں گا ہرگز میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ البتہ اگر علی بن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہیں ( تو میں اس میں رکاوٹ نہیں بنوں گا ) کیونکہ وہ ( فاطمہ رضی اللہ عنہا ) میرے جگر کا ایک ٹکڑا ہے جو اس کو برا لگے وہ مجھ کو بھی برا لگتا ہے اور جس چیز سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ (صحیح بخاری5230)
ایک جگہ یہ بھی الفاظ ہیں کہ اللہ کے رسول اور دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں. (صحیح مسلم 3517).
لہٰذا ان الفاظ کے مخاطب حضرت علی کی ذات بنتی ہے لیکن حضرت علی کے اس فیصلے سے ان پر کوئی حرف نہیں آتا. دوسرا یہ کہ اگر اس سے مراد وہی ہے جو حضرت ابوبکر پر تنقید کرنے والے لیتے ہیں تو پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کبھی بھی ان کو منافق جانتے ہوئے بیعت نہ کرتے اور نہ ہی بعد میں اس نظام کا حصہ بنے رہتے. انہوں نے جب بھی کسی بات یا فیصلے کوغلط سمجھا اس کو علی الاعلان غلط کہا. جس کی بڑی مثال حج تمتع پر جب حضرت عثمان نے پابندی لگانا چاہی تو انہوں نے کھل کر مخالفت کی اور کہا کہ میں آپ کے کہنے پہ یہ سنت نہیں چھوڑ سکتا اور سب سے پہلے میں تمتع کی نیت کرتا ہوں.
لہٰذا ایسی اولولعزم شخصیت کا فدک کے معاملے کو کفر اسلام کا مسئلہ نہ بنانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس مسئلہ کی آڑ لے کر ان ہستوں پر تنقید کرنا ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے.

بدھ، 5 فروری، 2020

یوم یکجہتی کشمیر اور ہماری کشمیر پالیسی.. تحریر انجینئر عمران مسعود

صبح 5 فروری کی خبروں میں بتایا جا رہا تھا کہ آئی ایس پی آر نے ہوم کشمیر کے لیے نیا نغمہ جاری کر دیا. گزشتہ 73 برسوں سے یہ متنازعہ علاقہ اقوام عالم کی توجہ کا خواہاں ہے . اقوام متحدہ میں 18 سے زائد قراردادیں پیش ہو چکی لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے. بلکہ بھارتی ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوتا گیا. اس معاملے میں ہماری حکومتوں کا کردار کیا رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 5 فروری 1989 سے لیکر 1991 تک جہاد کشمیر اپنے بام عروج پر ہونے اور آزاد کشمیر میں ہزاروں مجاہدین کی موجودگی کے باوجود حکومت پاکستان کی اس وقت تک کوئی سرکاری کشمیر پالیسی وجود میں نہیں آئی تھی کہ وہ کشمیری مجاہدین کی کس نوعیت اور کس حدتک باقاعدہ مدد کرے۔ اس وقت مرحوم سردار عبدالقیویم خان صدر آزاد کشمیر، سردار سکندرحیات خان وزیر اعظم آزاد کشمیر کی کاوشوں اور پاک آرمی کے باہمی اتفاق سے آپریشن بالا کوٹ کے نام سے کشمیری مجاہدین کو کچھ ہتھیار اور سرسری تربیت کا انتظام کیا گیا تھا۔ حکومت وقت اس دوران گو مگوں کشمیریوں کی کچھ حد تک سفارتی حمایت کررہی تھی مگر باقاعدہ سفارتی، سیاسی اور اخلاقی سطح پر کشمیریوں کی ہرقسم کی مدد کا ابھی تعین نہیں ہوا تھا۔اس وقت ابھی پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی کشمیریوں کی کھل کر حمایت میں نہیں آئی تھیں۔ اس وقت یہ جرأت جماعت اسلامی پاکستان اور اسکے امیر مرحوم قاضی حسین احمدنے نہ صرف جماعت اسلامی پاکستان بلکہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کو مجاہدین کشمیر کی ہر طرح کی دیکھ بھال اور سیاسی و اخلاقی مدد کے لیے متحرک اور منظم طریقے سے مجاہدین کشمیر کے ساتھ جوڑا تھا بلکہ پورے پاکستان میں جہادکشمیر کے لیے آگاہی اور عوامی رابطہ مہم جاری کی تھی حکومت پاکستان اورپاکستانی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اثر ورسوخ سے کشمیریوں کی سیاسی حمایت پر آمادہ کیا تھا اسی سیاسی مدد گاری مہم کا ایک اہم نقطہ یہ تھا کہ قاضی حسین احمد نے اس وقت کی مسلم لیگی حکومت کو قائل کرلیاکہ کشمیری قوم کا مورال بلند رکھنے اور حکومت پاکستان کی طرف سے خیر سگالی اور حمایت کا بھر پور اظہار کر نے کے لیے یوم یکجہتی کشمیر سرکاری سطح پر منایا جائے۔ یوں وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے قاضی حسین احمد کے ہمراہ مظفر آباد کا دورہ کیا ایک سیاسی عوامی جلسہ کیا گیا اور کشمیریوں کی قربانیوں کو سلام عقیدت پیش کیا گیا ۔ک پاکستانی قوم کی طرف سے کشمیریوں کی باقاعدہ حمایت کا اعلان کیا گیا اور ہرسال پانچ فروری کو پاکستانی قوم کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ سرکاری سطح پر اظہار یکجہتی کا عہد کیا گیا۔تب سے لے کر آج تک پاکستان میں بالعموم سب حکومتوں نے مسند اقتدار کی زیب و زینت بنتے ہی کشمیریوں کی عملاً حمایت کی قسم کھائی اور نیم دلانہ حمایت کا عہد کیا۔مگر ہرکسی نے چند حریت رہنماؤں سے ملاقات تک اس عہد کو نبھایا۔ ہر حکومت نے یوم یکجہتی کشمیر ہر سال ۵ فروری کو سرکاری طور پر باقاعدہ طور پر منایا۔عمران خان کی حکومت نے گزشتہ برس ڈی چوک میں یوم یکجہتی کشمیر پر ایک بہت بڑا جلسہ کیا اور وزراء نے کشمیریوں کی حمایت کا دم بھرامگر اپنی پیشرو حکومت کی طرح تذبذب کا شکار رہ کر گزشتہ سال 27 ستمبر کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے علاوہ کوئی خاطر خواہ حمایت و یکجہتی کے اقدامات نہ اٹھائے ۔
5 اگست کے بھارتی اقدامات کے بعد سے جس طرح امید کی جا رہی تھی کہ حکومت کشمیر معاملے پہ اپنا کردار ادا کرے گی لیکن یہ صرف دعوؤں اور تقریبات تک ہی محدود رہا. اس برس بھی 5 فروری کو مظفرآباد میں تقریب کا اہتمام کیا گیا. عالمی سطح پر اس معاملے پہ اجاگر کیا گیا لیکن اس کے بھی کچھ خاطر خواہ اثرات کا نظر آنا بعید از قیاس ہے جب تک کہ اس معاملے کو آئی سی جے میں لے کے نہ جایا جائے اور سرکاری سطح پر اپنی کشمیر پالیسی کو حتمی طور سے واضح کیا جائے.


#Kashmirday  #kashmirsolidarity day,  #5February #Pakistan #kashmeer #kashmiri

جمعرات، 30 جنوری، 2020

توہین رسالت ﷺ کے بڑھتے ہوئے جرائم اور ان کے اسباب..تحریر انجینئر عمران مسعود

تحریر:

انجینر عمران مسعود

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے پروفیسر جنید حفیظ جس کو توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہے. جب اس کی مبینہ گستاخی کی تفصیلات سے آگاہ ہوا تو ایک لمحے کے لیے زمانہ طالب علمی میں چلا گیا جب ہم اپنی یونیورسٹی کے کچھ پروفیسر حضرات کے بارے سنا کرتے تھے کہ ان کے نظریات بہت اوپن ہیں اور اسلامی تعلیمات کو بھی تنقید کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے. ان میں دو مرد اور ایک خاتون پروفیسر شامل تھی. ان میں سرفہرست شعبہ فائن آرٹس کے ایک پروفیسر تھے جن کے بارے تاثر یہی تھا کہ وہ دہریے ہیں. ایک بار فیسبک مسنجر پہ رجوع الااللہ سے متعلق ایک میسج میں نے دوستوں کو بھیجا جو موصوف کو بھی بھیج دیا تو انہوں نے بہت گستاخانہ اور تضحیک آمیز جواب دیا جو کو شان الہی میں گستاخی تھی. جس کا میں نے ان کو جواب دیا لیکن مجھے بلاک کردیا گیا. کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ وہ امریکہ چلا گیا. بہرحال
یہ بات 10 سال پرانی ہے. پچھلے دنوں میں ایک کالم نظر سے گزرا جس میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے ہی کے ایک پروفیسر نے انکشاف کیا کہ جنید حفیظ جیسے اور بھی بہت سے پروفیسرہیں جو کہ لادینیت کا شکار ہیں اور اپنے نظریات طلبا کے زہنوں میں ڈالتے رہتے ہیں.
پاکستان کی تمام بڑی جامعات میں ایک کثیر تعداد ان اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کی ہے جو کہ لادینیت کا شکار ہیں. جن پر آئے دن مذہبی طلبا تنظیمیں احتجاج کرتی نظر آتی ہیں مگر افسوس کہ حقائق کو جانے بغیر مذہبی انتہا پسندی کی آڑ لے کر یکطرفہ کاروائی کے نتیجے میں تشدد کی فضا بڑھتی جا رہی ہے.
جنید حفیظ کو پھانسی ہوتی ہے یا نہیں لیکن اس سے قطع نظر میں اس سوچ کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا جس کے نتیجے میں ہمارے قابل ترین اور پڑھے لکھے لوگ الحاد اور لادینیت کا شکار ہو جاتے ہیں. بڑے قابل اور سکالرشپ لینے والے نوجوان جب بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو ان میں سے ایک تعداد مذہب بیزاری اور الحاد کا شکار ہو جاتی ہے.
آج کے دور کی نوجوان نسل کو میڈیا نے اتنا شعور دے دیا ہے کہ وہ سوال کرتی ہے. اپنے سوال کے جواب میں دلیل مانگتی ہے. اور یہی معاملہ ہمارے دین کا بھی ہے.
بہت سے ایسے نوجوان ہیں جو اسلام اور دین کی تعلیمات سے متنفر ہو رہے ہیں وجہ صرف ہمارے نظام تعلیم میں دین کی نامکمل آگاہی ہے. دین کے مزاج سے نا آشنا ہمارے مسلمان نوجوان جب بیرون ممالک جاتے ہیں جہاں فلسفہ اور منطق بہت شدت سے معاشرے میں رائج ہے. جب اسی پیرائے میں دین کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں تو شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں. اسی طرح کچھ مخصوص اعتراضات جو کہ اسلام اور قرآن سے متعلق ہیں جن کے بارے عام مسلمان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا ان کے سامنے آتے ہیں تو ذہنی انتشار میں مبتلا ہونے لگتے ہیں. نتیجتاً کچھ لاشعوری اور چند شعوری طور پر دین بیزار اور الحاد کا شکار ہونے لگتے ہیں. اب چونکہ تمام اسلامی ممالک میں قوانین اس معاملے میں سخت ہیں لہذا اکثر تو خاموش رہتے ہیں لیکن کچھ آوٹ سپوکن ان خیالات کا اظہار کر دیتے ہیں اور نتیجتاً ایک انتشار کی فضا پیدا ہوتی ہے. اور توہین رسالت جیسے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں.
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاملے کو مذہبی انتہا پسندی کے کھاتے ڈال دیا جاتا ہے. یا اگر بہت زیادہ ہو تو یہ مواد ہٹانے اور بلاک کرنے پر اکتفا کر لیا جاتا ہے. لیکن اس سوچ کے آگے بند باندھنے یا دین کی آگاہی سے متعلق کوئی خاطر خواہ اقدامات میڈیا اور حکومت کی طرف سے نظر نہیں آتے. اور یوں معاشرے میں انتشار کی فضا کو ہوا ملتی ہے اور اسلام دشمن عناصر جو پہلے ہی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں وہ ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہمارے نوجوان لاشعوری طور پر ان کا آلہ کار بننے لگتے ہیں.
آج انہی غفلتوں کے باعث مذہبی اور لبرل طبقہ کی خلیج بڑھتی جارہی ہے. دو انتہائی رویے جنم لے رہے ہیں. ایک طرف مذہبی انتہا پسندی تو دوسری جانب سیکولر اور ملحدانہ سوچ. اور یہ سب صرف آزادیِ رائے کے نام پر ہو رہا ہے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء اور اربابِ اختیار اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کریں. ہم نے فرقہ واریت اور شدت پسندانہ رویوں سے بہت نقصان اٹھایا ہے لیکن اب ہم مزید اس کے متحمل نہیں ہو سکتے. اللہ اس قوم پہ اپنا فضل کرے اور ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین




#junaidhafeez #blasphemy #religiousthoughts #extremist #extremism #junaidhafeezcase



بدھ، 18 دسمبر، 2019

آدھا سچ اور متشدد رویے..... تحریر انجینئر عمران مسعود


آدھا سچ ہمیشہ خطرنا ک ہوتا ہے. لیکن یہی آدھا سچ بہت سے لوگوں کے مفاد کا ضامن بھی ہے . معاملہ چاہے سیاسی ,معاشرتی یا مذہبی اسی آدھے کو پیش کرکے اپنے مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔.

بحیثیت طالبعلم مذہبی اختلافات پہ تحقیق کا آغاز کیا تو ایک وقت کے بعد اتنا تذبذب کا شکار ہوا کہ کچھ سمجھ نہ آئے. یوں لگتا جیسے دونوں ہی سچ بول رہے ہیں لیکن دماغ کہتا تھا کہ آخر کوئی تو غلط ہوگا اور کوئی صحیح. جب فریقین کے دلائل کو پرکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں تو پورا سچ ہی مفقود ہے. کیونکہ اگر پورا سچ جانیں تو آدھے سچ سے ماخوذ نتائج کے منافی موقف سامنے آجاتا ہے. بہرحال اس معاملے میں بہت سے علماء ایسے بھی ہیں جو پورے سچ کے ساتھ مکمل تصویر پیش کرتے ہیں. اس آدھے سچ کے ذریعے فریق مخالف کو غلط ثابت کرنے کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں متشدد رویے جنم لیے اور ان رویوں کا خمیازہ پورا معاشرہ بھگت رہا ہے۔.

سیاسی معاملات میں بھی دیکھ لیں تو یہی صورتحال تظر آتی ہے. اپنے سیاسی مخالف کے منفی پہلو تو پیش کرتے لیکن مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرتے یا اس کی بھی اپنے موقف کے مطابق تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. یہی رویہ فریق مخالف کا بھی ہوتا ہے. نتیجہ معاشرے میں تصادم کی صورت میں نکلتا ہے۔.

گویا ایک ایسی ذہنیت تیار کی جاتی ہے جس کے مطابق آپ کا فریق مخالف ہمیشہ غلط ہو گا.

حالیہ دنوں ہونے والے دو واقعات اسی آدھے سچ کا نتیجہ ہیں. ایک پی آئی سی لاہور حملہ دوسرا اسسٹنٹ کمشنر اٹک کا معا ملہ. حالانکہ ایک ذی شعور آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ کسی بھی واقعہ کے محرکات ضرور ہوتے ہیں لہذا کسی فریق کو بری الذمہ قرار دینا نا انصافی ہے. میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاتا کیونکہ یہ موضوع نہیں ہے.

دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر اٹک کے معاملے میں دلی دکھ ہوا کہ ہم نے معاشرے کو کیا سوچ دی ہے... اگر بولنے والے نوجوان کے خلاف کاروائی ہوتی تو وہ مجاہد ملت قرار دیا جاتا اور بہت سے مفاد پرست طبقے خوب عوام کو استعمال کرتے جبکہ دوسری جانب ان محترمہ کی جو ہتک ہوئی اس کے نتیجے میں دوسرا طبقہ مذہبیت کو تنقید کو نشانہ بنا رہا ہے.

اسی طرح دہشت گردی کی وجہ سے اس ملک نے جتنا نقصان اٹھایا وہ بھی اس آدھے سچ کا پیش خیمہ ہے. نتیجتاً مذہبی اور لبرل طبقہ وجود میں آیا. یہ دو طبقات ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو سننا بھی گوارہ نہیں کرتے کیونکہ ایک ذہنیت وجود میں آچکی ہے کہ آپ کا فریق مخالف ہمیشہ غلط ہے. اس کی عقل پہ پردہ ہے. اور ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی دوڑ میں سیکولرازم کی سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے.اس سے بڑھ کر کہ سیکولرازم نے تو صرف مذہب کو عبادت تک محدود کیا لیکن الحاد نے تو مذہب کے وجود کا ہی انکار کر دیا. اور ان کے پاس دالائل میں وہی آدھے سچ ہیں جو ہمارے اکابر اور قائدین بیان کرتے ہیں.

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پورا سچ عوام کو بتانا ہو گا اس سے قطع نظر کہ آپ کے مخالف کو اس سے حمایت ملتی ہے یا نہیں. کیونکہ اکثر مسائل تو دونوں پہلو واضح کرنے سے حل ہو جاتے ہیں. آدھا سچ ہمیشہ دو مختلف نتائج دیتا ہے لیکن پورا سچ ایک ہی نتیجہ پہ لے آتا ہے. یہی دین اسلام کی بھی تعلیم ہے اور یہی معاشرے میں شدت پسندی کے خلاف بند باندھ کے امن کا ضامن ہے.


Assistant commissioner attock, blasphemy, attock

اتوار، 16 دسمبر، 2018

سقوط ڈھاکہ پرحمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کیوں عوام سے پوشیدہ رکھی گئی

تحریر
انجینئر عمران مسعود 

61دسمبر 1971 کے سانحہ کو ہوے ایک عرصہ بیت گیا جب ملک پاکستان کا وہ بازو ہم سے الگ ہوا جہاں سے قیام پاکستان کی تحریک نے آل انڈیا مسلم لیگ کی شکل میں 1906 میں جنم لیا۔
یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس کا زخم. آج بھی تازہ ہے.۔مگر اس کے اسباب کیا تھے اس سے عام پاکستان کو ایک طویل عرصہ تک لاعلم رکھا گیا۔
میجر راجہ نادر پرویز کہتے ہیں کہ 17 دسمبر کی صبح وہ محاذ پر موجود تھے کہ ایک بھارتی کرنل اپنی جیپ میں آیا اور ان سے مخاطب ہوکر بولا کہ آپ ابھی تک یہاں ہیں جبکہ جنگ تو ختم ہو چکی اور ڈھاکہ میں ہتھیار پھینک دینے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں کسی قسم کے احکامات موصول نہیں ہوے لہذا ہم آخری دم تک لڑیں گے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا عجیب بات ہو سکتی ہے کہ دشمن کا ایک جوان ہمارے جوان کو خبر دے رہا ہو کہ سرنڈر ہو چکا ہے اور آپ ابھی تک محاذ پر موجود ہو. اہل عقل و دانش کے لیے اشارہ ہے کہ کتنا بڑا گھناؤنا کھیل پس پردہ کھیلا گیا۔
سانحہ کے اسباب کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے اپنی سفارشات پیش کیں مگر وہ رپورٹ کیا تھی اس کو 18 سال تک پوشیدہ رکھا کیا۔

یہ بھی پڑہیے۔پاکستان سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی کوشش

آخر کار جب یہ رپورٹ ایک بھارتی ہفت روزہ India Today کے اگست 2000 کے شمارے میں شائع ہوئی تو ایک انکشافات کے سلسلے نے جنم لے لیا. سانحہ کے 29 سال بعد اس رپورٹ کا شائع ہونا کسی تشویش سے کم نہیں تھا۔ ایک اہم سوال کا جنم لینا فطرتی تھا کہ یہ رپورٹ بھارت کیسے پہنچی اور اب تک پو شیدہ کیوں رکھی گئی. یہ سوال ابھی تک تشنہ طلب ہے۔
تک کہا جاتا رہا کہ اس میں کچھ پردہ نشہنوں کے نام ہیں جس کی وجہ سے اس رپورٹ کو شائع نا کیا جا سکا۔حتی کہ یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ اس رپورٹ کی کوئی کاپی موجود نہیں۔اس سے قبل خان لیاقت علی کا قتل اور ضیاالحق طیارہ کیس کی رپورٹ تا حال منظر عام پر نہ آ سکی۔یوں لگتا جیسے مجرم حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں یا خود اقتدار کے مزے لینے والے کچھ عناصر اس کا حصہ رہے۔یہ تو بہر حال ایک تلخ داستان ہے۔
دسمبر 1990 کو مشاہد حسین کے حوالے سے دی نیشن میں جب حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ چھپی تو ایک بار پھراس موضوع پر گفتگو کا آغاز ہوا۔ حمود الرحمن کمیشن نے چھ جرنیلوں کا کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی تھی جن میں جنرل یحییٰ خان,  جنرل عبدالحمید, لیفٹیننٹ جنرل ایس جی ایم ایم پیرزادہ,  میجر جنرل عمر,  لیفٹیننٹ جنرل گل حسن اور جنرل مٹھا شامل ہیں۔
ان پر فیلڈ مارشل ایوب خان سے اقتدار چھیننے کے لیے سازش کرنے کا الزام عائد کیا گیا   ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ ان افسروں کا مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں محاذوں پر مجرمانہ غفلت برتنے پر بھی کورٹ مارشل کیا جائے اور مقدمہ چلایا جائے۔

آسیہ بی بی کو کیوں رہا کیا گیا اور عالمی طاقتیں کتنا دباؤ دال رہی ہیں۔ یہ بھی پڑہیں

اس پر ردعمل میں جنرل ریٹائرڈ گل حسن نے دعوی کیا کہ  وہ ہر قسم کے مقدمات اور کورٹ مارشل کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ اس کے بقیہ کرداروں یعنی مجیب الرحمن, ذوالفقار علی بھٹو, یحییٰ خان اور جنر حمید کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ یہ رپورٹ ایک افسانہ اور قیاس آرائی سے بڑھ کر کچھ نہیں کیونکہ بھٹو مرحوم کے دور میں یہ رپورٹ پھاڑ دی گئی ۔
ایک اخباری انٹرویو میں جب ان سے اس سانحہ میں بھٹو کے کردار پر سوال کیا گیا تو ان کو کہنا تھا کہ اگر بھٹو اس میں ملوث نہ ہوتے تو وہ اس رپورٹ کو تمام سربراہان کو بھیجتے اور اگر فوج ملوث نہ ہوتی تو ضیاالحق کمیشن کے سامنے پیش ہوتے۔ انہوں نے مزید واضح کیا تھا اس کمیشن نے ان سے چار گھنٹے تک سوالات کیے تھے جن کے انہوں نے جوابات دیے. بعد ازاں اس کا مسودہ ٹایپ شدہ حالت میں پڑھنے کے لیے ان کو فراہم کیا گیا جو انہوں نے پڑھ کر واپس کر دیا تھا مگر اب یہ رپورٹ اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں. جو کچھ بھی اب کہا جا رہا ہے وہ محض افسانہ یا قیاس آرائی ہے۔اس رپورٹ پر مفصل تجزیہ اور کرداروں کی تفصیل  طارق اسماعیل ساگر کی کتاب"حمودالرحمن کمیشن رپورٹ آخری سگنل کی کہانی " میں مل جائے گی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہآج اس رپورٹ کے پیش ہوے 36 برس کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ماضی کے تمام کمیشن رپورٹوں کی طرح یہ بھی قصہ ماضی بن چکا ہے.


16 december, saqoot e dhaka, east pakistan , hamood urehman conission zulfiqar ali bhutto,